• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب مطالعہ پاکستان پڑھایا جانے لگا تو استادوں نے کہا کہ سب سے پہلے قائد اعظم کے چودہ نکات یاد کریں کہ امتحان میں یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا چاہے سوال نامہ معروضی ہی کیوں نہ ہو اور جو کتاب ہم نے لکھی ہے وہ فلاں کتاب گھر سے لے لیں۔کوئی کوئی استاد تھا جو ان چودہ نکات کا پس منظر بتاتا تھا اور نہرو رپورٹ یا میثاق لکھنؤ سے ان کا تعلق بتاتا تھا اور یہ بھی سمجھا دیتا تھا کہ محمد علی جناح چاہتے تھے کہ کچھ ایسی مصالحت ہو جائے کہ تقسیم ہند کی نوبت نہ آئے۔آج تو بہت کتابیں بھارت اور پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھرمیں شائع ہو گئی ہیں جن میں ان نکات کی ایسی ایسی تشریح کی گئی ہے جو ہمارے قائد ہی نہیں تب کے بھارتی نیتاؤں کے سامنے بھی لائی جائے تو ان کی آتمائیں بھی مسکرا دیں۔ پھر بڑی بحث ہوئی چھ نکات پر پوربو پاکستان اور پچھمی پاکستان کے بڑے لیکھک میدان میں کودے اور بھارت کے بھی۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا زمانہ تھا جب وہ صدر تھے،میر سپاہ تھے اور صدر ہونے سے پہلے وزیر دفاع بھی تھے ۔ان کے نو رتن مشہور ہیں مگر اپنی کتابوں اور تقریروں کے حوالے سے دو کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ مرد آہن کے خیالات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ان میں سے ایک کھل کے اشارے کر رہے تھے حسین شہید سہروردی کے شاگرد مجیب الرحمان کے یہ نکات الطاف گوہر نے لکھے ہیں ۔ہم لوگوں نے زیادہ تر آمریت کا زمانہ دیکھا اس لئے جو کہا جاتا تھا اس کا تجزیہ نہیں ہوتاتھا اور نہ درسگاہیں اور نہ ہی زیادہ تر نوکری بچانے کے فکرمند استاد شاید آج بھی یہ باتیں کھل کے بتا سکتے ہیں کہ چھ نکات کے ذریعے کون کس پر دباؤ ڈالنا چاہتا تھا حالانکہ آج یوم تکریم استاد منایا جا رہا ہے۔ بہرطور جب جنرل آغا محمد یحییٰ کے دور میں بہت اہم مذاکرات ہو رہے تھے تو چیختی چنگھاڑتی شہ سرخیوں کے ساتھ ایک دن بتایا جاتا کہ ساڑھے تین نکتوں پر مفاہمت ہو گئی ہے بس ڈیڑھ نکتہ رہ گیا ہے جس کا تعلق بیرونی تجارت اور ہر صوبے کی الگ کرنسی سے ہے اور پھرپاکستان دو لخت ہو گیا یوں بہت سے شعلہ بیان خطیبوں کی خطابت دھری رہ گئی،تب سیاسیات اور بین الاقوامی امور کے دو چار استادوں اور اچھے طالب علموں کے سوا کسی کو فیڈریشن اور کنفیڈریشن کے فرق کانہیں پتا تھا البتہ اب سنا ہے کہ ان چھ نکات کو انگریزی میڈیم کی چمکیلی جامعات میں یا ساؤنڈ پروف دیواروں کے اندر کیس اسٹڈی کے طور زیر بحث لایا جاتا ہے بلکہ اب تو تزویراتی اہمیت کے کورس آگئے جس میں ’تخفیف ِ تصادم ‘یا ’الجھنوں کے سلجھاؤ‘ سے ملتے جلتے عنوانات والے کورس آگئے ہیں امید ہے کہ حفیظ ہوشیارپوری کے اس شعر کے مفہوم سے کورس پڑھانے والے واقف ہوں گے۔

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

ابھی چودہ اور چھ نکات کی بحث سمیٹ رہے تھے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے بیس نکات آ گئے ہیں دنیا میں امن کے نفاذ کیلئے۔اب جو عبرانی زبان جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ نیتن یاہو کو یہ بیس نکات اور طرح سے سمجھائے گئے ہیں ،عربوں میں پہلے ہی ج اور گ کا جھگڑا تھا کہ امریکہ کے زیر اثر ہونے کے باوجود مصر والے ناصر گمال کہتے تھے اور اردن والے سوشلزم سے ڈرتے بھی تھے اور اسے ناصر جمال کہتے تھے جہاں تک ہمارے بیدار مغز نائب وزیر اعظم کا تعلق ہے انہوں نے صدر ٹرمپ سے ایک طرح سے التجا کی ہے کہ ہمیں جو آپ نے بیس نکات انگریزی میں سمجھائے تھے اور جنہیں ہماری وزارت خارجہ کے افسروں نے بزبان انگریزی نوٹ بھی کر لیا تھا براہ کرم اس پر قائم رہئے۔

٭٭٭٭

جب سے ہم نے ٹوٹے پھوٹے حواس کے ساتھ ہوش سنبھالا تو فلسطین اور کشمیر کیلئے آواز بلند کی اور ہر مرتبہ جب امریکہ متحرک ہوا ہم خوش فہموں نے خیال کیا کہ فلسطین کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہونے کو ہے،تب ہم یاسر عرفات کو پورے فلسطین کا نمائندہ خیال کرتے تھے مگر برا ہو ضرورت سے زیادہ علم کا کہ ہمیں فلسطینیوں کی قیادت کچھ دھڑوں میں بٹتی نظر آنے لگی ۔بھوک،پیاس،روزگار کیلئے لڑنے والوں نے مزاحمت جاری رکھی تو اسرائیل کے بارے میں بھی امریکی جامعات سے وابستہ ایڈورڈ سعید ، نوم چامسکی اور اکبال(اقبال) احمد کے مضامین اردو اخبارات میں بھی شائع ہونے لگے تو تین "الفوں" پر تکیہ کرنے والے پاکستان میں یہ امید پیدا ہو جاتی کہ کشمیر کا مسئلہ بھی بھارت سے کسی بڑے تصادم کے بغیر حل ہو جائے گا مگرہوا کیا ہے یک دم ایک طوفان آیا کہ راولاکوٹ،میرپور،مظفر آباد میں وہ کچھ سنائی دے رہا ہے جو چوہدری غلام عباس، کے ایچ خورشید یا سردار عبدالقیوم کے زمانے میں شاید کبھی نہیں سنائی دیا،بے شک یہ باتیں ہوتی تھیں کہ آزاد کشمیر کے صدر یا وزیر اعظم سے طاقت ور اسلام آباد میں قائم وزارت امور کشمیر کے ’بابو‘ ہیں۔ میں اس یونیورسٹی سے وابستہ تھا جس کے شعبہ اردو میں چار لڑکے لڑکیوں نے ایم اے کیا ان میں سے دو نے تو پی ایچ ڈی کیا،ڈاکٹر شفیع الدین نے نامور ترقی پسند نقاد ممتاز حسین پر مقالہ لکھا اور ڈاکٹر ضیا الدین بابا نے اردو کے ریڈایائی ڈرامے پر اور کوٹلی کے کالج میں پرنسپل ہوا اور میں شاگردوں کے بل بوتے پر امور کشمیر کا ماہر ہوگیا اور وقت شہادت ہے آیا کے نغمے کی دھن ہمارے فوجی بینڈ کی بھی پسندیدہ دھن رہی۔ یار شفیع الدین ،ضیا الدین بابا یہ کیا ہوا؟ وہ جو کشمیر کی آزادی کیلئے جانیں دینےوالوں کے شہدا کے قبرستان پر ناز کرتے تھے ؟ انہیں کیا ہوا؟ دریائے نیلم کا رنگ کیوں بدلا؟

تازہ ترین