ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ دنیا بھر کے لیے خطرہ بن رہی ہے جس کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
عالمی سطح پر کی جانے والی ریسرچ کے مطابق کھانے کا طریقہ بدل رہا ہے، تازہ کھانوں کے بجائے سستے اور انتہائی پروسیسڈ کھانوں کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے جس سے موٹاپے اور ڈپریشن کے علاوہ دائمی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
معروف طبی جریدے سی لانیسٹ میں شائع ریسرچ کے مطابق حکومتوں کو اس سلسلے میں قدم اٹھاتے ہوئے الٹر پروسیسڈ فوڈ کے حوالے سے انتباہ جاری کرنا ہوں گے اور ان پر زیادہ ٹیکس لگانے کی ضرورت ہے تاکہ غذائیت والی خوراک تک رسائی کے لیے فنڈز فراہم کیے جا سکیں۔
الٹرا پروسیسڈ فوڈ کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ اس میں 5 ایسے اجزاء شامل ہوتے ہیں جو گھروں میں استعمال نہیں کیے جاتے، ان میں ایملسیفائر بنیادی اجزاء کو ملانے کے لیے مثلا تیل اور پانی کو ملانے کے لیے، پریزرویٹوز کا استعمال اشیاء کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے، ایڈیٹیو جنہیں کھانے کو محفوظ اور دلکش بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ان کے علاوہ رنگ اور مٹھاس شامل ہیں۔
الٹرا پروسیسڈ فوڈ میں ساسجز، کرسپ، پیسٹریز، بسکٹ، انسٹنٹ سوپ، فزی ڈرنکس، آئس کریم اور سپر مارکیٹس کی بریڈ بھی شامل ہیں۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صنعتی طور پر تیار کردہ کھانے، چینی اور غیر صحت بخش چکنائی سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان میں فائبر اور پروٹین کی مقدار کم ہوتی ہے۔
چند سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ریسرچ یہ ثابت نہیں کرتی کہ الٹرا پروسیسڈ فوڈ براہِ راست صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس ضمن میں مزید تحقیق اور ٹرائلز کی ضرورت ہے۔