انصار عباسی
اسلام آباد :…پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ (پی آر سی ایل) کے بورڈ ممبران کی جانب سے اپنے چیف ایگزیکٹو افسر کو متنازع انداز سے 35؍ کروڑ 50؍ لاکھ روپے کا پیکیج دینے کے معاملے پر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے پی آر سی ایل کے بورڈ ممبران کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا تاہم اب کمیشن کو کارروائی سے دستبردار ہونے کیلئے ہر طرف سے دبائو کا سامنا ہے۔ اگرچہ یہ بات پہلے ہی سامنے آ چکی ہے کہ وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال خان نے تمام متعلقہ افراد کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے، لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اسی معاملے پر بلوچستان اسمبلی بھی سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) پر دبائو ڈال رہی ہے کہ کارروائی روک دی جائے۔ بلوچستان اسمبلی نے ایس ای سی پی کے اقدام پر باضابطہ طور پر سنگین اعتراضات اٹھائے ہیں اور الزام عائد ہے کہ کمیشن بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پی آر سی ایل کے سابق چیف ایگزیکٹو افسر کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہا ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ نے ایس ای سی پی سے تفصیلی وضاحت طلب کی ہے اور کمیشن کے سابقہ جواب کو ’’غیر تسلی بخش‘‘ قرار دیتے ہوئے ایس ای سی پی پر جانبدارانہ جانچ کا الزام عائد کیا ہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ نے اسپیکر کی رولنگ پر جاری کردہ خط میں ایس ای سی پی سے 11؍ مخصوص سوالات کے جوابات طلب کیے ہیں۔ ان میں یہ بھی شامل ہے کہ سابق قائم مقام چیف ایگزیکٹو افسران سے سوال کیوں نہیں کیا گیا؛ ایس ای سی پی کی 2019ء کی گائیڈنس (جس میں کہا گیا تھا کہ ’’فِٹ اینڈ پراپر‘‘ کا اطلاق لُک آفٹر چارج پر نہیں ہوتا) کو اب کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؛ پی آر سی ایل کے ایک بورڈ ممبر (جس کا تقرر کالعدم قرار دیا گیا تھا) کے متنازع خط کو کارروائی کی بنیاد کیسے بنایا گیا ہے؛ اور یہ کہ ایس ای سی پی نے مناسب کارروائی مکمل ہونے سے قبل ہی نوٹس کو میڈیا میں کیوں مشتہر کیا۔ اسمبلی نے ایس ای سی پی کو ہدایت کی ہے کہ وہ تین یوم میں مفصل جواب جمع کرائے۔ اسمبلی کو بھیجے گئے اپنے پچھلے خط میں ایس ای سی پی نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ مکمل قانونی دائرے میں رہ کر اور بلا امتیاز کارروائی کر رہا ہے۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ شوکاز نوٹس جاری کرنے کا مطلب سزا دینا نہیں بلکہ صرف وضاحت طلب کرنا اور بورڈ کو سماعت کا موقع فراہم کرنا ہے۔ ایس ای سی پی کا کہنا تھا کہ وہ مکمل طور پر خود مختار ادارہ ہے اور سیاست یا صوبائیت میں اُلجھے بغیر ملک بھر میں قانون کو یکساں لاگو کرتا ہے۔ ایس ای سی پی نے اپنے اظہار وجوہ کے نوٹس میں الزام عائد کیا تھا کہ پی آر سی ایل کے سابق چیف ایگزیکٹو افسر کی تقرری انشورنس آرڈیننس اور سرکاری شعبے کے گورننس قوانین کی خلاف ورزی میں کی گئی، اور انہیں صرف 32؍ ماہ میں 355 ملین روپے دیے گئے، جو وفاقی حکومت کے منظور شدہ ایس پی پی ایس تھری اسکیل سے بہت زیادہ رقم ہے۔ بورڈ ارکان پر الزام ہے کہ انہوں نے سرکاری منظوری کے بغیر چیف ایگزیکٹو افسر کے تقرر پر ’’فِٹ اینڈ پراپر‘‘ اہلیت کے تقاضے نظر انداز کیے، ان کے تجربے سے متعلق گمراہ کُن معلومات فراہم کیں، دس بونس، سیورینس ادائیگیاں، کلب ممبرشپس، تفریحی چھٹیاں، بھاری الائونسز اور گھر کی تزئین و آرائش کیلئے فنڈز منظور کیے، اور کمپنیز ایکٹ اور سرکاری تجارتی اداروں کے قواعد کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی کی۔ ایس ای سی پی نے خبردار کیا تھا کہ ان خلاف ورزیوں پر پچاس لاکھ روپے تک جرمانہ اور ڈائریکٹرز کی پانچ سال تک نااہلی جیسی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔