• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایشیااور مشرق وسطیٰ میں حالات تیزی کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کی طرح بدل رہے ہیں مشرق وسطیٰ کے اکثر اسلامی ممالک کے حکمران اسرائیل کی ٹارگٹڈ کارروائیوں سے خوف زدہ ہیں۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ امن منصوبہ پیش کیا ہے اس پر عملدرآمد کے امکانات اور خدشات دور کی بات ہیں تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں امن قائم کرنے کے منصوبے کو عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل ہو رہی ہے۔ بظاہر یہ منصوبہ غزہ میں برسوں سے جاری انسانی المیے کو کم کرنے اور ایک نئے سیاسی و سیکورٹی فریم ورک کے قیام کی کوشش کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس پر عملدرآمد ممکن ہے اور اگر ممکن ہو تو اس کے مشرقِ وسطیٰ، ایران اور پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس منصوبے کی بنیاد میں جنگ بندی، یرغمالیوں کے تبادلے، حماس کے غیر مسلح ہونے، اسرائیلی افواج کے مرحلہ وار انخلا اور ایک عبوری ٹیکنوکریٹک انتظامیہ کے قیام جیسے نکات شامل ہیں۔ ساتھ ہی بڑے پیمانے پر انسانی امداد اور تعمیرِ نو کے وعدے بھی کیے گئے ہیں۔ بظاہر یہ سب اقدامات قابلِ تعریف ہیں لیکن زمینی حقائق ان پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں۔اس پر عملی رکاوٹیں جن میں سب سے بڑی رکاوٹ خود حماس ہے، جو اپنے اسلحے اور اثرورسوخ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اسرائیل کے اندر بھی سیاسی تقسیم اس منصوبے کو مشکل بنا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ منصوبے پر عملدرآمد کی نگرانی کون کرے گا؟ کس کے پاس اتنی غیر جانبداری اور طاقت ہے کہ وہ اسرائیل اور حماس دونوں پر دباؤ ڈال سکے؟ یہ سوالات ابھی جواب طلب ہیں۔جہاں تک ایران پر اثرات کا تعلق ہے ایران اس منصوبے کو خطے میں اپنے اثرورسوخ کے خلاف ایک چال سمجھتا ہے۔ اگر حماس کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی گئی تو ایران اپنے اتحادی گروہوں کی پشت پناہی بڑھا سکتا ہے۔ اس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی اور حزب اللہ جیسے گروہ زیادہ متحرک ہو سکتے ہیں۔پاکستان کی پوزیشن واضح نہیں ہے کیونکہ پاکستان ہمیشہ فلسطین کاز کا کھلا حامی رہا ہے۔ اس منصوبے پر پاکستان کا رویہ محتاط رہے گا تاکہ ایک طرف فلسطین سے یکجہتی کا اظہار ہو اور دوسری طرف عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بھی متاثر نہ ہوں۔ تاہم عوامی اور مذہبی حلقوں میں اس منصوبے کیخلاف آواز بلند ہونا فطری امر ہوگا، کیونکہ عوام کی ہمدردیاں ہمیشہ فلسطین کے ساتھ رہی ہیں۔عالمی و علاقائی منظرنامہ کو دیکھا جائے اگر یہ منصوبہ کسی حد تک کامیاب ہو جاتا ہے تو بعض عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اقدامات کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا تو تعلقات میں مزید تناؤ آئے گا۔ امریکا اس منصوبے کو اپنی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کرے گا، لیکن اگر اسے مسلط شدہ اور یکطرفہ سمجھا گیا تو امریکا کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہوگا۔بہترین صورت میں جزوی امن قائم ہو سکتا ہے اور تعمیرِ نو شروع ہو جائیگی۔زیادہ امکان یہ ہے کہ کچھ علاقے پرامن رہیں جبکہ دیگر میں جھڑپیں جاری رہیں۔ بدترین صورت میں منصوبہ مسترد ہو جائے، اسرائیل طاقت کا استعمال کرے، اور خطہ مزید آگ کی لپیٹ میں آ جائے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ کاغذ پر ایک جامع فریم ورک دکھائی دیتا ہے، لیکن اسکی کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی عوام اور قیادت کو اعتماد میں لیا جائے، عملدرآمد کیلئے شفاف اور غیر جانبدار نظام بنایا جائے اور علاقائی طاقتیں مثبت کردار ادا کریں۔ بصورت دیگر یہ منصوبہ تاریخ میں ناکام کوششوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا- دوسری جانب مئی 2025 میں بھارتی حکومت نے بھی معرکہ سندور کےنام پر پاکستان میں پہلگام حملہ کے نام پر پاکستان میں سات مقامات پر ٹارگٹڈ حملے کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ہم نے پہلگام کے ماسٹر مائنڈ کے ٹھکانوں پر حملہ کیا مگر پاکستان کی مسلح افواج نے ایسی دھول چٹائی کہ دنیا بھر میں پاکستان کو وہ مقام حاصل ہوا جسکے شادیا نے اب بھی بج رہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی ٹارگٹڈ حملوں کا دیگر مسلم ملکوں نےاس طرح جواب نہیں دیا حالانکہ سال 2024ءاور 2025ءکے دوران اسرائیل نے ٹارگٹڈ کارروائیوں میں مسلم قیادت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ مشرقِ وسطیٰ کے جلتے ہوئے منظرنامے میں ایک سوال شدت سے جنم لیتا ہےکہ کیا اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ، حماس اور ایران کی عسکری قیادت پر بڑھتے ہوئے حملے خطے میں امن کی راہ ہموار کرینگے یا مزید آگ بھڑکائیں گے؟ گزشتہ ایک برس میں اسرائیل نے جن رہنماؤں کو نشانہ بنایا، انکے نام تاریخ کے صفحات پر درج ہو چکے ہیں۔ان شہادتوں نے خطے کی سیاست اور عسکری توازن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائیاں اسکی سلامتی کیلئے ناگزیر ہیں، مگر حزب اللہ، حماس اور ایران انہیں کھلی جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔مستقبل میں یہ خطہ مزید عدم استحکام اور تنازع کا شکار بھی ہو سکتا ہے- اس تناظر میں دیکھا جائے تو امت مسلمہ کو ایک ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی نہ صرف اسے دفاعی لحاظ سے مضبوط ہوناہوگا بلکہ تمام شعبوں میں خصوصی طور اقتصادی اور معاشی طور پر ایک دوسرے کو مستحکم کرنا ہوگا۔ عرب ممالک کو پسماندہ مسلم ملکوں کے بے روز گاروں کیلئے دروازے کھولنا ہوں گے۔ باہمی تجارت کو فروغ دیکرمقامی منڈیوں کا حجم بڑھانا ہوگا۔ مقروض مسلم ممالک کی بڑھ چڑھ کرمالی مدد اور بلاسود قرضے فراہم کرنے ہونگے۔

تازہ ترین