حکمرانوں اور محکوموں میں فاصلے روز بروز بڑھتے جاتے ہیں سیاست سے نظریات اور تدبر خارج ہو چکا ہے۔ہماری ساری محبتیں یا نفرتیں شخصیات سے ہیں نظریات سے نہیں ۔کسی انتخابی حلقے میں اکثریت کی رائے وہ نہیں ہے جو اس حلقے سے ایم این اے یا ایم پی اے کی ہے۔ اس لیے تاریخ بلا جھجک یہ کہہ سکتی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے اپنے حلقے کی اکثریت کے ساتھ ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اس کا عملی تجربہ آزاد جموں و کشمیر میں دیکھنے میں آیا ہے۔ کیا ایک فرد ایک ووٹ کا تجربہ یا پارلیمانی جمہوریت کا نظام ناکام ہو چکا ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ،ہم نے بزور بازو سارے سسٹم ناکارہ کئے ہیں۔ تاریخ کا ایک ادنیٰ طالبعلم ہوں اللّٰہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ 1947ء سے اب تک کے ہر دور کا، ہر تجربے کا منطقی معروضی اور سائنسی تجزیہ کرتا آیا ہوں۔ قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری اور پاکستان کی تاریخ کے پہلے سال میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنماؤں کی جو تشخیص بار بار کی اپنی تقریروں میں ان کا برملا اظہار بھی کیا ۔آپ ابھی دوبارہ یہ تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں صوبائیت، 'لسانیت 'کرپشن، ذخیرہ اندوزی، پارٹی تنظیم،بیوروکریسی کی مطلق العنانی، غیر سیاسی اداروں کی سیاسی خواہشات سب کی نشاندہی انہوں نے کی۔ مشرقی پاکستان میں چٹا گانگ اور ڈھاکہ میں کی گئی تقریریں پھر بلوچستان میں مختلف مقامات پر خطاب۔ معدنی دولت کی نعمتوں کا ذکر، ہر مذہب کی توقیر،اقلیتوں کے حقوق، اپنے انتہائی مختصر دورِ گورنری میں وہ بار بار خرابیوں کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ ان کی رخصتی کے بعد یہ ساری خرابیاں، عصبیتیں ابھر کر سامنے آگئیں۔ اس کے باوجود پاکستان کے پہلے 10 سال میں ایک جوش اور ایک جذبہ نظر آتا ہے پاکستان کے دونوں بازوئوں کے قدرتی وسائل اور انسانی وسائل میں ایک بامقصد امتزاج نظر آتا ہے۔ صدیوں قدیم تہذیب ثقافت اور بیکراں وسائل رکھنے والی سرزمین کو ایک نئی مملکت کے طور پر آگے لے جانے کا عزم ،ہر شہر میں اور خاص طور پر دارالحکومت کراچی میں دکھائی دیتا ہے۔ ہم دوسری جنگ عظیم کے زخم خوردہ جاپان اور جرمنی کو قرضے بھی دے رہے ہیں۔ اگر اسی جذبے جوش اور عزم کو تسلسل ملتا ہمارے حکمران قائد اعظم کی نشان زدہ برائیاں ختم کرتے اور ایک جمہوری مملکت کی خوبیاں اختیار کرتے تو آج ہمارا ملک 78سال بعدایک خوشحال فلاحی مملکت ہوتا ۔ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ جو بھی آیا سیاسی یا فوجی حکمران ، اسکی خواہش رہی کہ اسے 20 سال تک حکمرانی مل جائے تو وہ پاکستان کو قائدا عظم کا پاکستان بنا دےگا۔سول حکمرانوں کو تو ایک ایک میعاد بھی پوری نہ ملی۔ فوجی حکمران آٹھ سے 10 سال رہے مگر قومی مفادات کا تعین نہ ہو سکا ۔ہم پیچھے ہی جاتے رہے۔ آج کل 20کے بجائے 10 سال کی آرزو کی جا رہی ہے۔ اقبال بار بار یاد آتے ہیں ’’جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا‘‘۔ لیکن ہمیں بھی شاخ نازک پر آشیانہ بنانے کا ہی شوق ہے اور پھر یہ کہ ہمارے حکمران آشیانے میں تو قیام کم ہی کرتے ہیں زیادہ تر دوسرے براعظموں میں اڑتے رہتے ہیں۔ عوام کے منتخب حکمران ہونے کے بجائے وہ کسی کارپوریٹ کے سی ای او یا ایم ڈی ہونے کا اظہار زیادہ کرتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں بہت کم جھانکتے ہیں بلکہ شعوری طور پر اکثریت کے برعکس سوچ رکھتے ہیں۔ جمہوری طریقہ تو یہ ہے کہ ماہرین مسائل کے حل کیلئے منصوبہ بندی کریں۔
پھر پارٹیاں اپنی سینٹرل کمیٹیوں سے اس کی توثیق کروائیں ضروری افہام و تفہیم کے بعد اسے پارلیمنٹ میں لے جائیں جہاں ایم این اے اور سینیٹر اپنے حلقے کے عوام کو اعتماد میں لے کر اس کی روشنی میں اپنا اظہار خیال کریں۔اس عام بحث کے دوران منصوبے کی خامیاں بھی دور ہوتی ہیں اپنی پارٹی کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اکثریت سے خوف آتا ہے کہ ان کے منصوبے مسترد کر دیے جائیں گے ۔اس وقت ہماری اشرافیہ پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے سے بجا طور پر بہت خوش ہے ہم تو سعودی عرب کی سلامتی اور خاص طور پر حرمین شریفین کی حفاظت کا فرض ہمیشہ سے ادا کرتے آئے ہیں۔ پھر وائٹ ہاؤس کی مسکراہٹ کو ہم ایک نعمت غیر مترقبہ خیال کر رہے ہیں۔ ہم امریکہ سے اپنے 78 سال کی قربتوں کا جائزہ نہیں لے رہے بہت ہی نازک معاملات ہیں ۔ہمارا آزمایا ہوا دوست تو چین ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے چین اور امریکہ دو متحارب قوتوں کا آپس میں رشتہ پاکستان نے ہی کروایا ۔چین اور امریکہ دونوں نے آپس میں بہت سرمایہ کاری کی ہے مگر پھر بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذسے ہمیشہ کانپتا رہا ہے۔ ہمارے حکمران امریکہ سے جب بھی معاہدے کرتے رہے تو ہمارے مذہبی حلقے بائیں بازو کی قوتیں اور عوام کی اکثریت اسے پسند نہیں کرتی رہی ہے۔ 60ءکی دہائی میں سیٹو سینٹوکے معاہدے سے لیکر اسرائیل فلسطین امن معاہدے تک پاکستان کے عوام کا رد عمل ہمیشہ منفی ہی رہا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے ہم پاکستانی ہمیشہ خوش ہوتے رہے ہیں۔ یہ دونوں معاہدے عالمی سطح پر بہت تبدیلیاں لائیں گے لیکن کیا پاکستان کے عوام کی مشکلات ان سے دور ہوں گی؟ کیا ہمارے قرضے معاف ہو جائیں گے یا ہم قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضے لینا بند کر دیں گے؟۔ اور یہ جو خبریں کبھی کبھی آتی ہیں کہ فلاں مغربی کمپنی اپنے کارخانے دفاتر بند کر کے جا رہی ہے اس کے کیا اسباب ہیں۔ کیا پارلیمنٹ نے ان پر غور کیا۔ پاکستان کی داخلی و اقتصادی صورتحال ان کمپنیوں کیلئے سازگار کیوں نہیں رہی۔ کیا سرکاری ٹیکسیشن زیادہ ہو گئی ہے یا یہ بھتہ خوری سے تنگ آگئے ہیں۔ کیا اس سے بے روزگاری نہیں بڑھے گی اور یہ مصنوعات درآمد ہو کر آئیں گی تو کیا ان کی قیمتیں نہیں بڑھ جائیں گی ۔ملک کے وسیع تر مفاد میں1985ءسے باریاں لینے والی پارٹیاں موجودہ سسٹم کو کامیاب بنانے کیلئے اکٹھی ہوئی ہیں لیکن اب ان میں سیاسی جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں ۔آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ پر تشدد مظاہروں سے واہگہ سے گوادر تک عوام کو تشویش لاحق ہوئی اور اب امریکہ کو پسنی کی بندرگاہ دینے کے معاملے پر بھی پریشانی ہے کہ کیا اس سے گوادر بندرگاہ پر چین کو تشویش نہیں ہوگی۔ 300کلومیٹر پر چاہ بہار میں اگرچہ انتظامات انڈیا کے پاس ہیں لیکن ایران کو امریکہ کی فوجی موجودگی سے پریشانی ہو سکتی ہے ۔کیا ان سارے معاملات پر پارلیمنٹ میں، یونیورسٹیوں میں ،میڈیا میں کھلی بحث نہیں ہونی چاہیے۔ پہلے ایسے تجربات سے پاکستان کو کیا فائدہ اور کیا نقصانات ہوئے یہ بھی جائزہ لیا جانا چاہیے ۔قومی سیاسی پارٹیوں کا فرض قوم کی رہنمائی ہے قوم کی تنہائی نہیں۔