• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ تباہی و بربادی کا دوسرا نام ہے۔ مسولینی نے کہا تھا،جنگ مرد کیلئے اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنا عورت کیلئے عمل زچگی۔ جرمن نژاد خاتون امریکی فلاسفر،ہنہ ارندت کہتی ہیں، جنگ کا شمار تعیشات میں ہوتا ہے اسلئے محض چند اقوام ہی اسکی متحمل ہو سکتی ہیں۔برٹرینڈ رسل کے مطابق جنگیں یہ فیصلہ نہیں کرتیں کہ کون صحیح تھا،بلکہ دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ زندہ کون رہ جاتا ہے۔ اسی طرح آسٹرین مصنف اور صحافی،کارل کراکس نے کیا خوب کہا،جنگیں اسلئے ہوتی ہیں کہ سفارتکار صحافیوں سے جھوٹ بولتے ہیں اور جب یہ جھوٹ شائع جاتا ہے تو اس پر یقین کر لیتے ہیں۔امریکی مزاح نگار اور اداکار، وِل راجرز نے طنز و استہزا کے پیرائے میں لکھا، ہر جنگ میں قتل کرنے کا انداز بدل جانے کے بعدآپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تہذیبی ارتقاء کا عمل آگے نہیں بڑھ رہا۔امریکی صدر،جان ایف کینیڈی نے ایک موقع پر یہ خواہش ظاہر کی ”اس سے پہلے کہ جنگ نوع انسانی کو ہڑپ کرلے، انسان جنگ کو مار ڈالیں“۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسانیت پر بیشتر جنگیں خود امریکہ نے مسلط کیں۔ فرانسیسی فلاسفر، جان پال سارترنے کہا تھا،جنگ مسلط تو اُمرا کرتے ہیں مگر اس میں مرتے غربا ہیں۔جبکہ سابق امریکی صدر،رابرٹ ہوور کا کہنا ہے کہ جنگ کا فیصلہ تو بوڑھے کرتے ہیں مگر اس میں لڑنے مرنے کی ذمہ داری نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ یونانی مورخ اور فلاسفرہیرو دوتس نے جنگ کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھازمانہ امن میں بیٹے اپنے باپ کو دفناتے ہیں مگر دوران جنگ باپ اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھاتے ہیں۔روسی مصنف، لیو ٹالسٹائی کے بقول جنگ اس قدر مکروہ اور غیر منصفانہ عمل ہے کہ اسے مسلط کرنیوالوں کو پہلے اپنےضمیر کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔امریکی فلاسفر ول ڈیورانٹ کے مطابق ماضی کے 3421برسوں میں محض 268 سال ہی ایسے ہیں جن میں جنگ نہیں ہوئی۔امریکی مورخ، گیری ولزکے خیال میں جنگی جرائم کسے کہتے ہیں، یہ فیصلہ کرنے کا اختیار محض فاتحین کوہوتا ہے۔رومن فلاسفر،Lucius Annaeus Seneca کا قول ہے کہ جنگ وہ کھیل ہے جس میں رنراپ کیلئے کوئی انعام نہیں ہوتا۔اسی طرح جارج اورویل کا کہنا ہے کہ جنگ جلد ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ شکست قبول کرلیں۔ارباب دانش کے جنگ سے متعلق یہ اقوال یوں یاد آئے کہ دو سال کی جنگ کے بعد آخر کار غزہ میں جنگ بندی ہونے جارہی ہے۔ 7اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں مذہبی تہوار کی مناسبت سے تعطیل کے موقع پر جنوبی حصے صحرا النقب میں سپر نووا فیسٹیول منایا جارہا تھا کہ اچانک رقص و سرود کی محفلیں چیخ و پکار میں بدل گئیں۔ حماس کے جنگجوؤں نے حملہ کردیا۔اس تاریخ کا ایک خاص پس منظر یہ تھا کہ 6اکتوبر 1973ء کو جب عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اس دن بھی مذہبی تہوار ”یوم کپور“ کے حوالے سے چھٹی تھی۔اسرائیل کا مضبوط دفاعی حصار Bar Lev Lineجسکے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ اسے تسخیر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،اسے مصر اور شام نے کامیاب حکمت عملی سے روند ڈالا۔شاید حماس نے اسی تاریخی مناسبت سے اسرائیل کو سرپرائز دینے کا فیصلہ کیا۔یہ کارروائی جسے ”آپریشن طوفان الاقصیٰ“کا نام دیا گیا تھا،اس میں نہ صرف کئی اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے بلکہ سینکڑوں مرد و خواتین کو حماس نے قیدی بنالیا۔جب ان خوبرویہودی دوشیزاؤں کو یرغمال بنایا جارہاتھا تو عالم اسلام کی مسرت دیدنی تھی۔ظاہر ہے جب ظالم،جابر اور جارح گرفت میں آتا ہے تو مظلوم خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ بہت افسوسناک ہے۔دو سال تک فلسطینیوں کی زندگیاں اجیرن کردی گئیں،غزہ کو ملبے کے ڈھیرمیں تبدیل کردیا گیا۔اس دوران یحییٰ سنوار اور اسماعیل حانیہ سمیت حماس کی مرکزی قیادت شہید ہوگئی۔اب لگ بھگ دو سال بعد غزہ میں امن ہونے جارہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20نکاتی امن فارمولے کو حماس نے قبول کرلیا ہے۔نہ صرف اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے بلکہ غزہ پر حق حکمرانی سے دستبردار ہونے کی کڑوی گولی بھی نگل لی ہے۔اس امن منصوبے پر پیشرفت کیلئے مصر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔عرب ممالک نے بھی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔البتہ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے کچھ تذبذب کا اظہار کیا۔وزیراعظم شہبازشریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن فارمولے کو خوش آئند قرار دیا مگر پھر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کو قومی اسمبلی میں یہ کہنا پڑا کہ جس مسودے پر اتفاق ہوا تھا یہ وہ نہیں ہے اور اس میں رد و بدل کیا گیا ہے۔غالباً اس کا سبب ممکنہ ردعمل کا خوف تھا۔اس معاملے کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ جب حماس نے جنگ بندی کی شرائط قبول کرلی ہیں تو پھر ہمارے ہاں کچھ لوگ حکومت پاکستان کو تنقید کا نشانہ کیوں بنا رہے ہیں۔تکلف برطرف،فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے ایک موقع پر کہا تھا،ہمیں فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بننے کی ضرورت نہیں تب جوش جذبات میں،میں نے بھی ایک تنقیدی کالم لکھا تھا مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ انکی یہ بات درست تھی۔ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں لیکن اگر وہ جنگ بندی چاہتے ہیں تو پھر ہماری طرف سے مزاحمت جاری رکھنے پر اصرار چہ معنی دارد؟سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر حماس نے ٹرمپ کی یہ شرائط قبول کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے تھے تو پھر اپنی سرزمین پر یہ تباہی و بربادی مسلط کرنے کی کیا ضرورت تھی؟جارج اورویل کی بات مستعار لیں توجنگ جلد ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ شکست قبول کرلی جائے اور حماس نے دیر آید درست آید کے مصدا ق صحیح فیصلہ کیا مگر جو جنگ عرب ممالک مل کر نہیں جیت سکے اور یہ حقیقت نوشتہ دیوار تھی کہ کوئی گروہ گوریلا جنگ کے ذریعے ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا،اسے شروع ہی کیوں کیا گیا؟

تازہ ترین