• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیجیٹل نیکی کے بارے میں میرے دوست نے ایک مرتبہ مجھے بتایا ۔ کہنے لگا، میں اپنے والد سے بڑی گہری محبت کرتا تھا۔ بظاہر وہ بڑے رعب دبدبے والے آدمی تھے لیکن اندر ہی اندر مجھ سے بہت گہری محبت کرتے تھے ۔ عبادت گزار زیادہ نہیں تھے لیکن نیت سو فیصد خالص تھی ۔ایک دن اچانک بیمار ہوئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے بستر پہ لگ گئے۔آج بھی مجھے وہ دن یاد ہے ، بسترِ مرگ پرجب میرا ہاتھ  تھام کر کہا :جب کوئی نیکی کرو تو ایک مرتبہ اپنے دل میں جھانک لیا کروکہ کس کیلئے کر رہے ہو ۔خدا کیلئے یا مخلوق کیلئے ؟ اگردنیا کیلئے تو پھرخدا سے صلے کی امید نہ رکھو۔ اگلے دن وہ فوت ہو گئے ۔والدہ شدید صدمے کا شکار تھیں ۔ چوتھے دن وہ بھی چل بسیں ۔

شدید صدمات کی وجہ سے میری دنیا اجڑ گئی ۔ ایک دن مسجد میں خدا کے حضورنماز میں کھڑا تھا کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ۔ میں روتا رہا ،روتا رہا ۔ نماز لمبی ہوتی گئی۔ سلام پھیرا تو دیکھا کہ میری گریہ زاری کی شدت کو دیکھ کر تین نوجوان عقیدت کی نظر سے مجھے دیکھ رہے ہیں۔اس لمحے اچانک میرے دل کو بے حد سرور حاصل ہوا ۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نماز اور لمبی ہو جاتی ، آنسو بہتے رہتے ۔میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مسجد میں موجود تمام لوگ مجھے خدا کے حضور روتا ہوا دیکھیں اور میں روتا رہوں ۔ میرے نفس نے میری نیکی اور پاکیزگی کا ایک بت بنا کر میرے سامنے کھڑا کر دیا۔ ان اجنبی نوجوانوں کو بھلا میرے والدین کی کیا خبر۔ ان کی نظر میں ، میں ایک ایسا آدمی تھا ، جس کا خد اکے ساتھ تعلق بہت گہرا تھا۔ جو خدا سےباتیں کرتا ،اس کے حضور روتا اور اس سے اپنی باتیں منواتا ہوگا۔بظاہر فیشن ایبل، اندر سے درویش ۔میرا نفس جھوم اٹھا۔

اجنبیوں کی نظر میں نیکی کا استعارہ بننے کا سرور اتنا تھا کہ مجھے اپنے ماں باپ بھول گئے۔ یہ ہے دوسروں کی نظر میں اچھا بننے کا سرور ، جسے حبِ جاہ کہا جاتا ہے۔ انسان کے ہر عمل میں دوسروں کی ستائش حاصل کرنے کا جذبہ دیوانگی کی حدود کو پہنچ جاتا ہے ۔اس کے بعد وہ نارمل نہیں رہتا۔

کہنے لگا: میں کھڑا ہوا ۔ میں نے دوبارہ نیت کی۔ اندر ہی اندر مگر اصل نیت کچھ اور تھی۔ میں نے ہاتھ اٹھائے۔ اسی وقت اچانک والدِ مرحوم کی شبیہ لہرائی۔فرما رہے تھے:نیکی کرو تو ایک مرتبہ اپنے دل میں جھانک لیا کرو کہ کس کیلئے کر رہے ہو۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے نہیں ہو سکتے ۔

اس نے کہا:میں نے اپنی نیت کا جائزہ لیا اور چیخ اٹھا:ارے، یہ نیکی تو میں مخلوق کیلئے کرنے لگا تھا اور اپنے نفس کیلئے۔ شیطان میرے اندر تھا اور میرے نفس کو لبھا رہا تھا ۔ یہ نماز تو میں نیک مشہور ہونے کیلئے پڑھ رہا تھا اور حتیٰ کہ اس مقصد کیلئے گریہ زاری کیلئے بھی تیار تھا ۔ میں نے ہاتھ گرا دیے اوربھاگ کر مسجد سے باہر نکل آیا۔ سلطان العارفین نے کہا تھا :

تسبیح پِھری تے دِل نہ پِھریا،

کیہ لَینا تسبیح پھڑ کے ہُو؟

عِلم پڑھیا تے اَدب نہ سِکھیا،

کِیہ لینا علم نوں پڑھ کے ہُو؟

چِلّہ کَٹّیا کُجھ نہ کھٹّیا،

کیہ لَینا چِلّیاں وڑ کے ہُو؟

جاگ بِنا دُدّھ جَمدے ناہیں

بھاویں لال ہووَن کَڑھ کَڑھ کے ہُو

 میں بھاگتا ہوا حویلی پہنچا ۔ دیگیں تیار ہو رہی تھیں ۔ کئی ہاتھوں میں کیمرے تھے ۔ ابا جی کی شبیہ لہرائی ۔اپنے آپ سے میں نے پوچھا: کیمرے اگر بند ہو جائیں تو پھر بھی اسی خوش دلی کے ساتھ تقسیم کرو گے ؟ نہیں ، بالکل نہیں ۔میرا نفس افسردہ ہو گیا۔میں نے کہا :کیمرے بند !میرے بھائی چونکے ۔ میں نے کہا: ابا جی کا حکم ہے ۔

اس نے کہا : فضیل بن عیاض ؒ کا واقعہ ہے ۔رمضان کے دوران پیدل سفر کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہجوم استقبال کیلئے مستعد تھا۔آپ ؒنے سوچا، پہلے ان سے نمٹ لوں۔ جیب سے روٹی نکالی اور لقمہ منہ میں ڈال لیا۔ ہجوم پلٹ گیا ۔کسی نے یہ بھی نہ سوچا کہ مسافر کا تو روزہ ہوتا ہی نہیں ۔

میرا دوست کہنے لگا: ڈیجیٹل نیکی ایک ایسی نیکی ہے کہ کیمرے بند کر دیے جائیں تو اس کی خواہش فوراً دم توڑ جاتی ہے ۔کیمرہ بند، لنگر بند ۔ کیمرہ بند، آنسو بند۔ ایسے بھی لوگ دنیا میں موجود ہیں کہ کیمرہ آن ہو تو گھنٹوں روسکتے ہیں ۔ نفس اور شیطان انسان کو دھوکہ دیتے ہیں ۔اپنے آپ سے وہ کہتا ہے کہ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ دوسروں کو بھی عبادت اور گریہ زاری کی توفیق ہو۔ ساتھ ہی ساتھ اگر لوگ مجھ سے متاثر ہو رہے ہیں تو میں نے تو انہیں نیکی کی طرف ہی لے کر آنا ہے ۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اپنے کسی عزیز کو کوئی تحفہ بھی دیں تو اس کی بھی وڈیو بنا لیتے ہیں ۔ بعض لوگ عمرہ کرنے نہیں جاتے ،وڈیوز بنانے جاتے ہیں ۔

اس نے کہا :میں سب لوگوں کے بارے میں فتویٰ نہیں دیتا۔ ہو سکتاہے کہ وڈیو بنانا کسی کی مجبوری ہو ۔ایک عمرہ کرنے والا اپنی یاد کیلئے تصویر بنا رہا ہے یا لوگوں کے سامنے اپنی نیکی ظاہر کرنے کیلئے ، یہ اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ایک ادارہ نیکی کی وڈیو بنائے گا تو لوگ اسے عطیات دیں گے ۔ دلوں کا حال اللّٰہ جانتا ہے ۔ ہر شخص کو مگر انفرادی طور پر اپنا جائزہ لینا ہے ۔ ایک دفعہ کیمرہ بند کر کے دیکھ تو سہی ، نیکی کو دل کر بھی رہا ہے یا نہیں ۔ یہ نہ ہو کہ قیامت کے دن ہم اپنی یہ ڈیجیٹل نیکیاں ہی ڈھونڈتے پھر رہے ہوں ۔

تازہ ترین