• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوبیل امن انعام: ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی یا دل ٹوٹے گا؟

—فائل فوٹوز
—فائل فوٹوز

اپنی سنہری کامیابیوں اور جائیدادوں کے لیے مشہور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اب تک دنیا کے معتبر ترین اعزاز ’نوبیل امن انعام‘ سے محروم ہیں۔

نوبیل امن انعام کا اعلان کل اوسلو میں ہو گا اور اس سے قبل 79 سالہ ٹرمپ کی اس انعام کے لیے بے چینی عروج پر ہے اور وہ مہینوں سے یہ شکایت کر رہے ہیں کہ عالمی امن کے لیے ان کی کوششوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

ٹرمپ نے بدھ کو ایک بیان میں اپنے امن مشن کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم نے 7 جنگیں ختم کیں، ہم آٹھویں کو ختم کرنے کے قریب ہیں اور میرے خیال میں ہم روس کا مسئلہ بھی حل کر لیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شاید وہ مجھے یہ انعام نہ دینے کی کوئی وجہ ڈھونڈ لیں گے۔

ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر وہ یہ انعام نہیں جیتتے تو یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی توہین ہو گی۔

سفارتی محاذ پر ہلچل

ٹرمپ کی انعام جیتنے کی اس کھلی خواہش نے عالمی سفارت کاری پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اسرائیل کے ایک سابق اعلیٰ مذاکرات کار کے مطابق ممکنہ طور پر اسی دباؤ کے باعث حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے میں تیزی آئی، تاکہ آخری لمحات میں امن کا اعلان کر کے ٹرمپ کو انعام کا حق دار ٹھہرایا جا سکے۔

اسرائیلی دفاعی افواج کے سابق مذاکراتی یونٹ کے کمانڈر کرنل ڈورون حدار نے کہا کہ ہر کوئی اوسلو میں نوبیل کمیٹی کے اعلان کی ٹائم لائن کو سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فریقین معاہدے پر پہنچنے میں جلدی کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کی اس خواہش کو بھانپتے ہوئے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کئی عالمی رہنما بھی میدان میں آ چکے ہیں، پاکستان، اسرائیل اور کمبوڈیا نے انہیں باضابطہ طور پر نامزد کیا ہے، جبکہ تائیوان کے صدر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر ٹرمپ چین کو تائیوان پر فوجی عزائم سے باز رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ بلاشبہ اس انعام کے حق دار ہوں گے۔

نوبیل روایات کے برعکس ایک غیر معمولی مہم

واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ نوبیل انعام کی تاریخ سے واقف ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی عوامی مہم اور لابنگ ’بے مثال‘ اور روایات کے بالکل برعکس ہے، انعام کے انتخاب کا عمل انتہائی خفیہ اور پرسکون ماحول میں ہوتا ہے اور امیدوار شاذ و نادر ہی عوامی مہم چلاتے ہیں۔

ہر سال ممکنہ فاتحین کی ایک فہرست جاری کرنے والی اوسلو کے پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر نینا گریگر نے کہا ہے کہ یہ بہت غیر معمولی ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس سال ٹرمپ ان کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، لیکن وہ ادارے شامل ہیں جن سے ٹرمپ کے تنازعات رہے ہیں، جیسے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ)۔

واشنگٹن پوسٹ نے ایک ذریعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٹرمپ کا دباؤ خود غرضی پر مبنی محسوس ہوتا ہے اور ان کا انداز انعام کی روایات سے یکسر متصادم ہے۔

امریکی سیاست میں حمایت اور مستقبل کی نامزدگیاں

امریکا کے اندر بھی ٹرمپ کو نوبیل انعام دلوانے کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں، فائزر (Pfizer) کے سی ای او البرٹ بورلا سے لے کر سینیٹر بل کیسیڈی تک کئی شخصیات نے کورونا وائرس ویکسین کی تیاری کے لیے ’آپریشن وارپ اسپیڈ‘ کو بنیاد بنا کر ٹرمپ کو انعام کا مستحق قرار دیا ہے۔

اسرائیل میں یرغمالیوں کے خاندانوں کی ایک تنظیم نے بھی غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں پر ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے انہیں نوبیل انعام دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اگر ٹرمپ کل یہ انعام جیتنے میں ناکام رہتے ہیں، تب بھی ان کے حامی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

ریپبلکن نمائندہ کلاڈیا ٹینی جو مشرقِ وسطیٰ میں ’ابراہیمی معاہدوں‘ پر ٹرمپ کے کام کو سراہتی ہیں، انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ انہیں تیسری بار نامزد کریں گی۔

سینیٹر کیسیڈی نے بھی کہا ہے کہ وہ ’آپریشن وارپ اسپیڈ‘ کی بنیاد پر ٹرمپ کو نامزد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ نوبیل انعام کی یہ دوڑ مستقبل میں بھی جاری رہ سکتی ہے۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید
خاص رپورٹ سے مزید