ایک وقت تھا کہ جوں ہی کہا جاتا تھا کہ ’’ کپتان نے نیا کھلاڑی آزمانے کا فیصلہ کر لیا‘‘ تو اک دم سے کچھ بجھے ہوئے چہرے کھِل اٹھتے تھے، اور کچھ کِھلے ہوئے چہروں پر ستارے اترنے لگتے تھے ،پھر ذرا ڈرامائیت پیدا کرنے کیلئے اسی بات کو یوں کہا جانے لگا ’’کپتان نے نیا کھلاڑی میدان میں لانے یا اتارنے کا فیصلہ کر لیا‘‘ تو پھر تماشا دیکھنے والے کچھ تقسیم ہو جاتے تھے کچھ کہتے تھے اب دیکھنا حریف کیسے بدحواس ہوتا ہے، کچھ کہتے کہ کچھ فرق نہیں پڑے گا،متواتر ہار کو کوئی کپتان،کوئی حکمت عملی بدل نہیں سکتی اب ہمارے کھیل کے میدان اجڑ چکے،مصنوعی زور سے بھلا کیا ہوگا،پھر وقت آیا کہ کھلاڑیوں کے بھی طبی معائنے ہونے لگے کہ وہ منشیات یا کوئی ایسی دوا تو استعمال نہیں کر رہے جس کی ممانعت ہے اگر کوئی نیا کھلاڑی پکڑا جاتا اور اس پر پابندی لگتی تو کچھ دل جلے کہتے ایسے کھلاڑی کو نہیں اسے میدان میں اتارنے والے کو پکڑو اور اگر کوئی تیر تکا لگ جاتا تو پھر اس کھلاڑی کے ساتھ کپتان کی بھی گڈی چڑھ جاتی۔ شعر سے رغبت رکھنے والے غالب،اقبال ،فیض اور فراز کے شعروں سے سند لاتے،تیر نیم کش کی بات کرنے والے غالب کا یہ شعر یاد کیا جاتا’ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا،نہ سہی..... آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا؟‘
ذرا سمجھ دار قسم کےلوگ اقبال کا پہلا مصرعہ حذف کر کے کہتے’آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو ہدف‘
اور نتیجہ وہی نکلتا جو یاسیت پسند پہلے سے کہہ رہے تھے تو وہ کہتے ہمارے فیض نے تو میچ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا’نہ گنوائو ناوک نیم کش ،دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا‘
جنہیں یہ بات سمجھ میں نہ آتی وہ شبلی فراز کے والد گرامی کا شعر دہرا دیتے’زخموں سے بدن گلزارسہی ،پران کے شکستہ تیر گنو... خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے؟‘
بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ آپ یاسیت پسند ہیں یا پھر تھوڑے سے خوش فہم دونوں صورتوں میں تبصرہ الگ الگ ہو گا،اور جو ہم جیسے بےخبروں کے سامنے باخبر ہوگا وہ مسکرا کے کہے گا کہ کھیل جاری ہے ممکن ہے کپتان نے ایک کھلاڑی کا نام لیا ہے مگر وہ میدان میں کسی اور کو اتارے اور پھر صدمے پہ صدمہ سہنے کے عادی ذرا کڑوی مسکراہٹ کے ساتھ کہیں گے’ نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی‘بات یہ ہے کہ جس کرکٹ نےکبھی ہمیں حنیف محمد،امتیاز احمد،فضل محمود ،جاوید میاں داد،وسیم اکرم اور وقار یونس دئیے تھے اس نے اب صدمے ہی صدمے دئیے ہیں ،ہم نے ان کے ناموں کے ساتھ خان بھی لگا کے دیکھ لئے مگر میرا نواسہ کہتا ہے کہ کوئی بھی آفریدی پانسہ پلٹ سکتا ہے کل رات آپ نے درہ خیبر پر چراغاں کرنیوالی فائرنگ نہیں سنی؟ میں اس پیارے بچے سے کہتا ہوں کہ اب ہمارے وطن کو امن چاہئے،تازہ پانی،تھوڑا سا سبزہ اور اپنے بچوں کے چہروں کی مسکراہٹ۔
٭٭٭٭
بے شک یہ دن ایسی خبروں کے ہیں جن میں انسانیت کیلئے بہت امیدیں ہیں۔ کیمسٹری کی دنیا میں نوبل انعام ایک فلسطینی کو دیا گیا ہے جو کینسر کی بدصورتی کو مٹانے کا عزم رکھتا ہے بے شک وہ امریکہ چلا گیا جو صرف صدر ٹرمپ کا دیس نہیں وہاں ایسی درس گاہیں ہیں جہاں آزادانہ تحقیق کی روایت ہےاور ٹرمپ بھی ایک آنکھ میچ کے کہتے ہیں کہ میں ہی ہوں جو نیتن یاہو اور حماس ،نریندرمودی اور شہباز کو ساتھ ساتھ بٹھا سکتا ہوں بے شک میرے پاس کوئی نیا کھلاڑی نہیں مگر میں کسی بھی جنگجو شرارتی بچے کو اچھا بچہ بننے کی تلقین کر سکتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ منہ پکا کرکےتھوڑی سی آنکھ مار کے کروڑوں دلوں میں اتر جانے والے انداز میں نقشے میں سویڈن کو دیکھ کے کہتے ہیں بس مجھے امن کا نوبل انعام دلوا دو نومبر کے بھارتی انتخاب سے پہلے تاکہ میں نریندر مودی کو بھی سمجھا سکوں کہ وہ اس افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دھماکوں کے منصوبوں پر عمل درآمد ذرا کم کر دے ۔جہاں کے وزیر خارجہ آج ہی بھارت پہنچےہیں کیونکہ میں بھارت جیسی بہت بڑی مارکیٹ کو امریکہ کے ہاتھ سے جاتا نہیں دیکھ سکتا،بھارت کو جعفر ایکسپریس کا نام پسند نہیں تو کوئی اور نام تجویز کردیں میں پاک بھارت مذاکرات کرا دوں گا بے شک اسے امبانی ایکسپریس کا نام دے دیں۔ میں چاہتا ہوں کہ بلوچستان کے ساحل پر جیونی بندرگاہ کو ترقی دوں، امریکہ کے سرمایہ کار قیمتی معدنیات میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان کو چین کے عشق سے نکالیں ، میرا تو جی چاہتا ہے کہ آج اپنے دوست ملک مصر کے شہر شرم الشیخ میں حماس اور اسرائیل کے معاہدے کے بارے میں پاکستان کی پس ماندہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں اور استادوں کے لئے ریفریشر کورس کرا سکوں کہ اتنی تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے کو وہ بے چارے بھی کچھ سمجھ سکیں جو اپنی میٹنگوں میں رونی شکلیں بنا کے کہتے ہیں کہ ہمیں اوپر سے حکم آیا ہے کہ ایک برس کا ایجنڈا اور نصاب یہی ہوگا۔ آخر وہ کیسے سمجھیں گے کہ سیٹلائٹ اور اسپیس ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے وسیع تر میدان کو اور اس بات کو کہ آج جس معاہدے پر فلسطینی بچے بھی یہودی بچوں کے ساتھ رقص کر رہے ہیں اور شمالی کوریا جیسے امن کے دشمن ملک کے ساتھ چین اور روس ایک بڑی رقص گاہ بنانا چاہتے ہیں ،جس میں ہمارے پیارے مسلمان اور عرب ملک بھی یہ کہہ کے اتر سکتے ہیں ’اے مری ہم رقص! مجھ کو تھام لو‘ ۔مجھے میری وزارت خارجہ کے افسروں نے اردو؍ ہندی شاعری اور کہانیوں کی کتابوں کے انگریزی ترجمے بھیجے ہیں، میں ٹیگور کو بھی پڑھ رہا ہوں مگر پہلے ایک کشمیری منٹو کو پڑھ لوں کہ اس ناشکرے نے چچا سام کے نام کچھ خط لکھے تھے۔