مس یونیورس مقابلے میں مس فلسطین نادین ایوب فلسطین کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون بننے والی ہیں جو عالمی سطح پر فلسطینی قوم کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔
نادین ایوب نے مس یونیورس مقابلے میں اپنی شرکت کا اعلان اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر کیا تھا۔
اُنہوں نے فوٹو اینڈ ویڈیو شئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اپنے بارے میں تفصیلات بھی بتائی ہیں۔
مس فلسطین نے بتایا کہ میرے والدین کا تعلق فلسطین سے ہے جب کہ میں امریکا میں پیدا ہوئی تھی، میری پیدائش کے کچھ عرصے بعد میرے والدین نے دوبارہ فلسطین جانے کا فیصلہ کیا اور پھر میں نے بچپن کے 6 سال فلسطین میں گزارے۔
اُنہوں نے بتایا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر میری فیملی کو دوبارہ امریکا جانا پڑا اور وہاں ہم 3 سال رہے پھر حالات کے پیشِ نظر ہم کینیڈا منتقل ہوگئے۔
نادین ایوب نے بتایا کہ میں نے زندگی کا زیادہ عرصہ کینیڈا میں گزارا اور اپنی اعلیٰ تعلیم بھی وہیں سے مکمل کی مگر کینیڈا میں رہتے ہوئے بھی میرے والدین اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ ہم اپنی چھٹیاں فلسطین میں گزاریں اور اپنی سرزمین سے جڑے رہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دوبارہ فلسطین جانے کا فیصلہ کیا، میں نے وہاں پر نفسیات اور انگریزی کی ٹیچر کے طور پر کام کیا، میں نے وہاں مختلف قسم کی فلاحی اداروں کے ساتھ بھی کام کیا۔
مس فلسطین نے بتایا کہ مجھے 2022ء میں مس فلسطین بننے کا موقع ملا، میں نے وہ ٹائٹل جیت لیا پھر ایک بین الاقوامی مقابلۂ حسن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، وہاں بھی میں ٹائٹل جیتنے میں کامیاب رہی اور وہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کوئی فلسطینی خاتون کوئی بین الاقوامی ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
اُنہوں نے بتایا کہ اس کامیابی نے سفر جاری رکھنے کے لیے میرا حوصلہ بڑھایا اور میں نے اپنی اس کامیابی کا مثبت اثر دیکھا تو اپنا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
نادین ایوب نے بتایا کہ میں نے مزید بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا لیکن فلسطین میں مظلوم لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر مجھے یہ وقت کسی بھی مقابلے کا حصہ بننے کے لیے مناسب نہیں لگا اس لیے میں نے اس کام میں تھوڑی تاخیر کی۔
اُنہوں نے کہا کہ اب 2025ء میں یہ فیصلہ کیا کہ میں مس یونیورس مقابلے میں فلسطین کی نمائندگی کروں گی اور بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کی آواز بنوں گی۔
مس فلسطین نے یہ بھی کہا کہ میں نہیں چاہتی کہ جیسا خبروں میں نظر آ رہا اس طرح فلسطینی دنیا میں صرف تکلیف کی علامت بن کر رہ جائیں کیونکہ ہم اس سے کہیں زیادہ ہیں، ہمارے خواب ہیں، خواہشات ہیں اور ہم باصلاحیت ہیں اور میں چاہتی ہوں کہ دنیا ہماری اس حقیقت کو جانے۔