• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بادشاہوں اور لیڈروں کا تاثر ان کی بدلتی کارکردگی کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اورنگ زیب ہوں یا شاہجہاں ہندوستان کے بڑے بادشاہوں میں سے تھے۔ اورنگ زیب بہت مذہبی تھا مگر دوسری طرف اس نے اقتدار کی راہ میں آنے والا نہ کوئی سگا بھائی چھوڑا نہ کوئی بھتیجا۔ یہی حال شاہجہاں نے اپنے بھائی اور بھتیجوں کا کیا۔ اب کوئی مورخ انہیں عادل، منصف اور متقی قرار دے بھی دے ،ان دونوں کے باریش ہونے پر انہیں تقدیس کے ہار پہننا بھی دے تو لیڈی میکبتھ کی طرح ان کے ہاتھوں پر لگے خون کو کون دھوئے گا۔ اشو کا یا اشوک اعظم نے بھی کالنجر کی جنگ میں قتل عام کیا مگر اس کے بعد اس کی ایسا کایا کلپ ہوئی کہ وہ امن کی علامت بن گیا۔ صدر ٹرمپ کی سیاست میں آمد ہوئی تو ان کی تقریریں اور اٹھان کبھی پسند نہ آئی۔ صدر کلنٹن، صدر اوباما اورڈیموکریٹک پارٹی کے امیگرنٹس سے دوستانہ رویے ،جمہوریت اور غریب سے انکی محبت کی وجہ سے پاکستانیوں کی اکثریت انکی حامی تھی، صدر ٹرمپ کے پہلے دور نے انکے بارے میں ناپسندیدگی پر مہر لگا دی اور انکے انتخابی جلسوں میں تقریروں کے بعد ان کا تاثر ہٹلر اور ہلاکو خان جیسا ہوگیا جو انسانوں کی اموات و تباہی کا باعث بنے مگر صدر ٹرمپ موجودہ ٹرم میں بالکل بدلے ہوئے لگ رہے ہیں، غزہ امن معاہدہ اگر کامیابی سے ہم کنار ہو گیا تو یہ ‎ ان کی اتنی بڑی کامیابی ہوگی کہ کل کو وہ آج کی دنیا کے نئے اشوک اعظم شمار ہوں گے۔

غزہ کی جنگ شروع ہوئی تو دنیا میں اسرائیل کا بیانیہ کامیاب تھا کہ حماس نے بے گناہ یہودیوں پر حملہ کر کے انہیں مارا ہے اور اب ان کے خلاف کارروائی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے مترادف ہوگی۔ شروع شروع میں عالمی رائے عامہ فلسطینیوں کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں تھی مگر جب اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے بار بار غزہ میں تباہی پھیلائی، ہزاروں فلسطینیوں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور صحافیوں کو بلاتفریق نشانہ بنایا تو عالمی رائے عامہ حقیقت پسندی کی طرف مائل ہوگئی اور نیویارک ٹائمز جیسے اخبار کو بھی بار بار لکھنا پڑا کہ اسرائیل اپنی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے ۔ صدر ٹرمپ اس بار صدر بنے تو کوئی ان پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا ان کی تقریروں کو ’بڑ‘ قرار دیا جاتا تھا ،انکے وعدوں کو جھوٹے خواب سمجھا جاتا تھا اور انکی پالیسیوں کو دائمی نہیں عارضی تصور کیا جاتا تھا مگر انہوں نے پہلے پاک بھارت جنگ رُکواکر پہلا گول مارا پھر انہوں نے آرمینیا اور آذربائیجان کی صلح کروا کے دوسرا گول مار دیا اور اب تو غزہ میں فلسطینیوں اور حماس کے درمیان مذاکرات کروا کے میرے جیسے اپنے ناقدین کو غلط ثابت کردیا ہے اوراس معاہدے کی کامیابی انہیں اشوک اعظم کی طرح امر کر سکتی ہے۔دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے کارنامے کی امید ہو اور وہ کارنامہ سر انجام دیدے تو کم خوشی ہوتی ہے لیکن اگر کسی شخص سے کارنامے کی ذرہ برابر امید نہ ہو اور وہ کارنامہ سرانجام دیدے تو خوشی بہت زیادہ ہوتی ہے صدر ٹرمپ کی بدلتی ہوئی کارکردگی حیران کن اور خوش کن ہے۔

صدر ٹرمپ وہی ہیں جنہوں نے ماضی میں پاکستان کو دہشت گردی کا اسپانسر قرار دیا تھا مگر اس ٹرم میں وہ پاکستان اور موجودہ سیٹ اپ پر خصوصی طور پر مہربان نظر آتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ کئی دہائیوں کی سردمہری اب گرم جوشی میں بدل چکی ہے گزشتہ دنوں ایک محفل میں ایک امریکی سفارتکار نے اپنے پاکستانی سامعین کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان جو مطالبہ پچھلے 75 سال میں امریکہ سے کر رہا تھاوہ اب مان لیا گیا ہے سب پاکستانی انکی طرف متوجہ تھے اور سوالیہ انداز میں انہیں دیکھ رہے تھے ، سفارتکار نے اپنے اعلان کو کلائمکس پر پہنچاتے ہوئے کہا ’’امریکہ اب پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا‘‘ محفل میں حکومت کے حامی بھی موجود تھے اور مخالف بھی۔ حکومت کے حامیوں کے چہرے تمتما اٹھے اور وہ اپنے مخالفوں کو مسکرا کر دیکھنے لگے۔ میرے قریب تحریک انصاف کا ایک حکومتی مخالف بیٹھا تھا وہ سرعام تو کچھ نہ بولا البتہ میرے کان میں سرگوشی کی ’’ہماری باری آئی ہے تو امریکہ نے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنالی ہے جبکہ ہمارے زمانے میں امریکی اپوزیشن سے بہتر سلوک کا درس دیا کرتے تھے‘‘۔ صدر ٹرمپ نے صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھرکے ملکوں کے اندرونی معاملات سے ہاتھ اٹھانے کی پالیسی اپنائی ہے اور اب تو یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ صدر ٹرمپ دنیا میں امن لانے کے خالی خولی وعدے نہیں کر رہے، اس حوالے سے نہ صرف وہ کوشش کر رہے بلکہ امن بحال کرنے میں کامیابیاں بھی حاصل کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ چونکہ ایک کامیاب بزنس مین ہیں اس لئے وہ سخت گیر حقیقت پسند بھی ہیں ۔صدر کلنٹن، صدر بائیڈن اور کسی حد تک صدر اوباما بھی تخیّل پسند زیادہ تھے اور حقیقت پسند کم۔ یہ دنیا تخیّل پسندی سے آگے بڑھتی ہے اور حقیقت پسندی سے چلتی ہے تخیّل سے مستقبل کے راستے کھلتے ہیں اور حقیقت پسندی سے حال کے عقدےوا ہوتے ہیں کبھی کبھی تخیّل پسندی آپ کو حال میں جینے کا ڈھنگ نہیں دیتی جبکہ حقیقت پسندی حال کی ہر چال کو مات دے دیتی ہے۔

غزہ امن معاہدے میں مسلم دنیا کیلئے بھی کئی پیغامات پوشیدہ ہیں مسلم دنیا کو بھی دیکھنا ہوگا کہ اسامہ بن لادن کے نائن الیون حملے نے مسلم دنیا کو کمزور کیا یا مضبوط؟ کیا مصری اخوان المسلمون نے اسرائیل امن معاہدہ پر جو ردّعمل دکھایا اس سے عرب دنیا کو فائدہ پہنچا یا نقصان ؟ حماس نے جو انتہا پسندانہ کارروائیاں کیں اس سے فلسطینی پہلے سے محفوظ اور پرامن یا غیر محفوظ اور بے امن ہوئے؟ حزب اللہ نے اپنے نیٹ ورک سے جو پالیسیاں بنائیں کیا اُس نے لبنان میں مسلم آواز کو توانا کیا یا پہلے سے بھی کمزور؟ کیا طالبان پاکستان کے اندر جو کارروائیاں کر رہے ہیں اس سے مسلمانوں کو ایذا اور سزا مل رہی ہے یا جزا؟ کیا القاعدہ یا آئی ایس آئی ایس جیسی انتہا تنظیمیں مسلمانوں کی ترقی کے راستے کھول رہی ہیں یا مسدود کر رہی ہیں؟ ظاہر ہے کہ انتہا پسندی، جنونیت اور زور زبردستی نے شام، لیبیا اور عراق کا جو حشر کیا ہے اگر یہی انتہا پسندی جاری رہی تو 57 مسلم اکثریتی ملکوں میں سے کوئی بھی مستحکم نہیں رہ سکے گا۔صدر ٹرمپ غیر روایتی سیاستدان ہیں جو آؤٹ آف باکس راستے اپنا سکتے ہیں حلیفوں کو حریف اور حریفوں کو حلیف بنانا انکے حوالے سے اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ ان کی یہی غیر روایتی سوچ اسرائیل اور بھارت کے انتہا پسندانہ عزائم پر کوڑا بن کر برس رہی ہے مگر مسلم دنیا کو اپنی جھوٹی شان و شوکت اور بڑے پن کے کھوکھلے دعووں سے نکل کر حقیقت پسندی کی طرف آناہوگا ۔ جب تک علم، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی تین نکاتی پالیسی پر عمل نہیں کیا جاتا، غزہ پر وقتی ریلیف عارضی ثابت ہوگا ،دائمی ترقی اورامن کیلئےجدید زمانے کے تین اوزاروں یعنی علم، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت سے لیس ہونا پڑے گا ۔فلاح، ترقی، امن اور خوش حالی کا یہی واحد راستہ ہے۔

تازہ ترین