2015ء میں تقریباً صفر سے شروع ہونے والی ملک کی شمسی توانائی کی صلاحیت 2026ء تک بجلی کے مجموعی نظام کے 20 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔
عالمی تحقیقی ادارے ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کے مطابق پاکستان کا سولر انقلاب حیران کن رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، صرف 2024ء میں ہی پاکستان نے 22 گیگاواٹ صلاحیت کے سولر پینلز درآمد کیے جو کہ برطانیہ کی گزشتہ پانچ سال کی مجموعی تنصیبات سے بھی زیادہ ہے اور کینیڈا کی پوری تاریخ میں لگائے گئے سولر سسٹمز سے بھی بڑھ کر ہے۔
ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ عموماً سبز توانائی کی طرف تبدیلی سست اور حکومتی پالیسیوں کے ذریعے ہوتی ہے مگر پاکستان میں یہ تبدیلی تیز، خود بخود اور مکمل طور پر مارکیٹ کی قوتوں کے مطابق ہو رہی ہے۔
2021ء سے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں 155 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، مہنگی اور زیادہ تر فوسل فیول سے پیدا ہونے والی یہ توانائی غیر یقینی بھی ہے، 75 فیصد پاکستانی کاروبار کہتے ہیں کہ مسلسل لوڈشیڈنگ اُن کی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔
گزشتہ ایک سال میں سولر پینلز کی قیمت 60 فیصد گر گئی ہے جس کے نتیجے میں گھروں، کھیتوں میں چھتوں پر سولر سسٹم بے حد تیزی سے پھیل رہے ہیں لیکن یہ تیز تبدیلی ملک کی توانائی کے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کو بھی آزما رہی ہے کیونکہ حکومت کی آمدن کا انحصار صارفین کی جانب سے گرڈ سے خریدی گئی بجلی پر ہے۔
حکومت نے سولر پینلز کی درآمد پر 10 فیصد ٹیکس بھی لگا دیا ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کا سولر سفر جاری ہے۔
2025ء میں اب تک پاکستان 1.5 ارب ڈالر کے سولر پینل درآمد کر چکا ہے جس کے بعد پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا سولر پینل درآمد کنندہ بن گیا ہے۔
ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کے مطابق پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے نمایاں عوامی قیادت سے ہونے والی توانائی کی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔