• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے تو یقین نہیں آتا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی موجودگی میں فلسطینی بھائیوں کو واقعی حقیقی آزادی اور خود مختاری میسر آ سکتی ہے۔ یہ امن معاہدہ صرف امریکی صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام دلانے اور انکا سیاسی قد اونچا کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ورنہ دو سال سے مسلسل جو وزیراعظم غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اب تک 70ہزار سے زیادہ انسان موت کی وادی میں دھکیل چکا ہے۔ جن میں خاص طور پر بچوں اور ماؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اسی سے واضح ہوتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کو آگے نہیں چلنے دینا چاہتا اگر اسے انسانیت کی ذرا سی بھی قدر ہوتی تو جب دنیا بھر میں امن کی باتیں ہو رہی ہیں اور وہ بھی تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان سفر کر رہا ہے تو وہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے کشتیوں کے قافلے کو غزہ پر لنگر انداز ہونے دیتا ۔اتنا بھی نہ کرتا تو کم از کم انکا امدادی سامان غزہ کے مظلوموں تک پہنچنے دیتا اگر اس قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کر بھی دیا تھا۔ رضاکاروں کو گرفتار کر بھی لیا تھا۔ اس وقت عمومی طور پر جہاں بھر میں فلسطینیوں سے ہمدردی کا سماں تھا۔ یہ قافلہ جو کھانے پینے کی اشیاء ادویہ طبی آلات لیکر آیا تھا وہ نیتن یاہو غزہ کے حکام کے حوالے کر دیتا۔ مسلم دنیا امریکی صدر کی تعریف میں قصیدے گنگنا رہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی انکو نوبل انعام کیلئے نامزد کر چکا ہے۔ اب اسرائیل نے بھی باضابطہ یہ اعلان کر دیا ہے۔ فلو ٹیلا سے جانے والے اپنے اپنے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ انکا خیر مقدم ہو رہا ہے ۔اسرائیل کی سفاکی، دنیا کی بے حسی ،مسلم بادشاہوں کی خاموشی کے تناظر میں گریٹا تھون برگ ، سینیٹر مشتاق کے استقبال کا جواز تو بنتا ہے انکی رہائی یقیناً اچھا اقدام ہے لیکن ان امدادی اشیاء کا ذکر کہیں نہیں ہو رہا ہے کہ وہ کیا سمندر برد کر دی گئیں یا اسرائیل نے ضبط کر لیں۔ نیتن یاہو اگر ذرا بھی امن پسند ہوتے تو وہ ان رضاکاروں کو نہ سہی مگر یہ امدادی سامان تو غزہ تک جانے دیتے مگر ان کا عزم تو فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے، اس لیے اس معاہدے سے کہاں تک یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ فلسطینیوں کو واقعی ایک آزاد خود مختار ریاست مل سکے گی۔ اکتوبر والے فلوٹیلا میں ایک لاکھ 10 ہزار ڈالر کی مالیت کی ادویہ ،سانس لینے کے آلات اور کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں۔ خاص طور پر بچوں کیلئے دودھ کا اہتمام تھا۔ اس سے پہلے جون جولائی اور اس سے قبل گزشتہ برسوں میں بھی ایسا امدادی سامان اسرائیل نے غزہ کے محصورین تک نہیں پہنچنے دیا۔ دو ریاستی فارمولا اب تک اسرائیل کو ہی طاقتور بناتا چلا آ رہا ہے۔ ایسی ریاست کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے جس کے حکام کو لوگوں کو اسرائیل کے ناکوں اور چوکیوں سے ہی گزرنا پڑے۔ جس ریاست کی اپنی کوئی فوج نہ ہو جو اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات میں خود مختار نہ ہو ۔آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کیساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے انکے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ پھر ہماری فرمائش یہ بھی ہوتی ہے کہ نماز عصر کے بعد محلے دار آپس میں ملیں ایک دوسرے کے حال احوال جانیں۔ پاکستان کی مشکلات کم نہیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ اور چین سے تعلقات میں توازن کی تعریف کی جا رہی ہے مگر واہگہ سے گوادر تک زمین پر تو اس توازن کی کوئی برکت دکھائی نہیں دیتی۔ غربت کی لکیر سے لوگ نیچے تو جا رہے ہیں مگر کوئی واپس اوپر نہیں آرہا۔ ہمارے ماہرین ،ہماری یونیورسٹیوں اور میڈیا ہاؤسوں کو باضابطہ تحقیق کر کے عوام کو اعداد و شمار سے آگاہ کرنا چاہئے کہ ہر مہینے ہم کتنا قرض ادا کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کے روزگار کیلئے نئے دروازے کہاں کہاں کھل رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ذمہ داری قومی سیاسی پارٹیوں کی ہے۔ مگر پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف ،جمعیت علماء اسلام، متحدہ قومی موومنٹ دوسری پارٹیاں کوئی بھی یہ نہیں بتاتا کہ آئندہ 10 /15 سال میں پاکستان سیاسی، معاشی، سماجی، علمی لحاظ سے کہاں کھڑا ہوگا ۔کن ہمسایوں سے تعلقات میں بہتری آئیگی۔ پی ٹی آئی کی انتخابی نتائج سے محرومی اور بہت زیادہ مقبولیت کی بات تو ہوتی ہے لیکن پی ٹی آئی بھی اب تک کوئی ایسی دستاویز قوم کے سامنے پیش نہیں کر سکی کہ اس کی تحقیق کے مطابق آئندہ 10/ 15 سال میں وہ مملکت پاکستان میں کیسے سیاسی معاشی اور دفاعی حالات دیکھ رہی ہے ۔ بہتری کیلئے اسکے پاس کیا پالیسیاں ہیں۔

فلسطین اور اسرائیل میں موجودہ امن معاہدے کے بعد قیدیوں اور یرغمالیوں کے جو تبادلے ہوں گے۔ ان میں ایک بہت مقبول فلسطینی 66سالہ لیڈر مروان البرغوثی کی رہائی کا ذکر بھی ہو رہا ہے وہ 20 برس سے اسرائیل کی قید میں ہیں۔ اسرائیل تو انکو سب سے زیادہ خطرناک دہشتگرد سمجھتا ہے۔ انہیں پانچ بار عمر قید کی سزا دی گئی کہ دوسرے فلسطینی انتفادہ میں انہوں نے پانچ اسرائیلیوں کو ہلاک کیا۔ حماس انکی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔ مروان لڑکپن سے ہی فلسطینی تحریک آزادی کیلئے سرگرم ہیں اور الفتح سے وابستہ ہیں ان سے یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطینیوں میں اتنے مقبول ہیں کہ الفتح حماس اور دوسرے فلسطینی گروہوں کو متحد کر سکتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ صدر محمود عباس 2005ء میں تو باقاعدہ منتخب ہوئے تھے چار سال کیلئے اسکے بعد الیکشن ہی نہیں ہوئے۔ اسلئے وہ اب فلسطینیوں میں غیر مقبول ہو رہے ہیں ۔فلسطینیوں کی مکمل خود مختاری اور تحفظ کیلئے وہ کوئی نمایاں قدم نہیں اٹھا سکے ۔

مروان حسیب ابراہیم برغوثی کو فلسطینیوں میں ایک غیرتمند ،بہادر، روشن ضمیر اور مذاکرات کے ماہر کی شہرت میسر آ رہی ہے۔ موجودہ غزہ جارحیت کے دوران ان کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ہم سب کو اپنے طور پر فلسطین کے معاملات پر نظر رکھنی چاہیے۔ کیونکہ ہم 1947سے کشمیر کے ساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی کیلئے بھی ہاتھ اٹھاتے رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا میں اس وقت تفصیل سے ذکر نہیں ہوتا کہ فلسطین میں کون کیا ہے۔ مگر نیٹ پر آپ کو تفصیلات مل سکتی ہیں۔ اب جب قیدیوں اور یرغمالیوں کی مکمل رہائی کے بعد غزہ کے اور فلسطین کے حقیقی مسائل پر مذاکرات ہوں گے تو دیکھنا ہوگا کہ حماس کے قائدین کو مسلم اور بالخصوص عرب ممالک میں سے کیا کیا حمایت نصیب ہوتی ہے۔ اسرائیل کو تو امریکہ کی مدد ہمیشہ سے میسر ہے میسر رہے گی۔ کیا غزہ میں امن معاہدے پر عمل درآمد کیلئے دوسرے ملکوں کی، عرب ممالک یا مغربی ممالک کی کوئی امن فورس موجود ہوگی جس سے فلسطینی بھائیوں کو آزادی کا کچھ احساس ہوسکے۔

تازہ ترین