کوئی جانے یا نہ جانے،مجھے علم ہے کہ میں ساون کا اندھا ہوں، مون سون گزارتے دہائیاں گزر چکی ہیں ۔پہلے ساون چھوٹے اورمختصر ہوتے تھے، اب ساون لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔ بارشیں پہلے ٹھنڈی ہوائیں اور خوشگواری لاتی تھیں اب یورپ کے لوگوں کی طرح بارش سے ڈر لگتا ہے بارش برستی ہے تو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی، دریائوں میں طغیانی، شہروں،دیہات میں سیلاب، جب یہ حال ہو گا تو ساون سہنے والوں میں اندھا پن تو آئے گا ،اکثر تو اپنی بیماری جان کر بھی مانتے نہیں مگر مجھے علم ہے کہ ساون کے اندھے کی طرح مجھے ہر طرف ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے۔ میرے اردگرد بھی سب ساون کے اندھے ہیں یک رنگے، یک رخے، نہ انہیں دوسرے پہلو کا علم ہے اور نہ دوسرے رخ کو وہ جاننا چاہتے ہیں۔ جب ساون برستا ہی جائے ہر طرف ساون کے اندھے ہوں سبز کے علاوہ باقی رنگ ہی نظر نہ آئیں تو احساس ہو جانا چاہیے کہ اندھے پن کی بیماری پھیل چکی ہے۔
نوبل پرائز یافتہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے جنگ اور امن کے حوالے سے اپنے مشہور ناول A farewall to arms میں بارش کو تباہی کا استعارہ بنایا، ناول میں جب بارش برستی ہے تباہی آتی ہے۔ مشرقی روایت میں بارش بالیدگی، تازگی اور سبزے کی نشانی ہے مگر موسموں کی تبدیلی نے ساون کو خوفناک بنا دیا ہے پہلے لوگ ساون میں چھٹیاں لیکر رومانس مناتے تھے اب کا ساون رومانس کی بجائے طغیانی اور سیلاب لا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر اسکے اثرات انسانی نفسیات پر پڑ رہے ہیں ۔مجھے بہت پہلے اندھے پن کی شکایت شروع ہوئی تو بے چینی میں سکون پانے کیلئے اس نظریاتی بیماری کے ’’پیر کامل‘‘ کی تلاش شروع کر دی ۔ مجھے علم ہو گیا کہ اندھے پن کے اس جن کو نکالنے کیلئے مجھے ایسے عامل کی ضرورت ہے جو چاہے آنکھیں بند رکھے مگر اسے ساون میں صرف ہرا ہرا نظر نہ آئے اسے دوسرے رنگ بھی صاف نظر آئیں وہ یک رخا اور یک رنگا نہ وہ بلکہ ہمہ رنگا ہو۔ کئی سال کی تپسیا کے بعد بالآخر ایس ایم ظفر کی شکل میں ایسا شخص مل گیا جو اپنے ذاتی نظریات رکھنے کے باوجود مخالف نظریات کو بھی سمجھ سکتا تھا، اسے سچا ہونے کی ضد نہ تھی وہ دوسروں کو جھوٹا ثابت نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ سوچتا تھا کہ میرے مخالف کے نقطۂ نظر میں بھی سچ ہے۔
1997ء میں روزنامہ جنگ نے پاکستان کے 50سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی منانے کا فیصلہ کیا۔ ملک کے 50سالہ نشیب و فراز کے ہر ہر پہلو پر خصوصی صفحات شائع کئے گئے۔بطور صحافی مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ہر کوئی جانبدار ، متعصب اور فریق تھا کوئی اسکندر مرزا کا مخالف تھا تو کوئی ایوب خان کو بخشنے پر تیار نہ تھا ،کسی کو ذوالفقار علی بھٹو میں سب خوبیاں اور جنرل ضیاء الحق میں سب خرابیاں نظر آتی تھیں مگر ہمارا مقصد تھا کہ ہر دور کی خوبیاں اور خامیاں سامنے لائی جائیں اسی سلسلے میں ایس ایم ظفر سے پاکستان کے تمام حکمرانوں کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر گفتگو ہوئی انہوں نے بغیر کسی ذاتی تعصب کےہر حکمراں کی خوبیاں اور خامیاں یوں الگ کر کے بتائیں کہ پہلی دفعہ پتہ چلا کہ ساون کے اندھے کو دوسرے رنگ کیوں نظر نہیں آتے۔ میں اپنی نظر کے اندھے پن کا علاج ان کی تھراپی سے کرتا تھا وہ اگلے جہانوں میں گئے تو اب کوئی طبیب ملتا نہیں جو اس بیماری کو سمجھ کر اس کا علاج کرے۔ جب سب ہی اندھے ہوں تو پھر اس اندھے پن کا قومی سطح پر علاج ہونا چاہیے اس کیلئے کوئی ایک مفکر یاایک ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک بڑا لیڈر چاہیے جو سب ساون کے اندھوں کا قومی سطح پر علاج کرے تاکہ انہیں صرف ہرا ہرا دِکھنے کی بجائے دوسرے رنگ بھی نظر آنا شروع ہوں۔
پنجاب کے صوفی شاعر بلھے شاہ کہا کرتے تھے ’’چل بلھیاچل اوتھے چلیے جتھے سارے انھے‘‘ وہ چاہتے تھے کہ نہ کوئی انہیں پہچانے اور نہ کوئی ان کو دیکھ کر انہیں ساون کا بیمارقرار دے شاید وہ بھی اس وقت کے سماج کو سمجھ کر اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ اکثر لوگ تب بھی روحانی اندھے محسوس ہوتے تھے تب شاید ساون تو اتنا طوفانی نہیں ہوتا تھا لیکن انصاف ، طاقت اور مذہب کے ایوانوں میں ساون کے اندھے ہی براجمان تھے۔ وہ ان روح کے اندھوں سے اصل یعنی جسمانی اندھوں کو ترجیح دیتے ہونگے۔
آج کا مسئلہ یہ ہے کہ میں بقلم خود ساون کا اندھا اپنی ہی ذات میں گم ہوں۔ یہ بابا جھلا خود کو ہی عقل و دانش کا منبع سمجھتا ہے اپنی رائے کو معتبر، درست اور صحیح سمجھتا ہے دوسری ہر رائے کو غیر معتبراور غلط قرار دیتا ہے، جھلا یہ سمجھتا ہے کہ کائنات میں اسے جو ہرا ہرا دکھائی دے رہا ہے وہی واحد رنگ ہے اسے نہ دوسرے رنگ نظر آتے ہیں اور نہ اسے کائنات کی رنگینی اور رنگارنگی کا علم ہے ۔
میں ہی کیا، یہاں سب ساون کے اندھے، سبھی جھلے ، سبھی خود کو سچا، سبھی خود کو ایماندار تصور کرتے ہیں اور یہ جھلے اس کائنات کے دوسرے رنگوں کو مٹانا چاہتے ہیں ،یہ دوسرے نقطۂ نظر کو ختم کرنا چاہتے ہیں اورہر اختلافی آواز کو دبانا اور مٹانا چاہتے ہیں۔ ساون کے اندھے لڑائی، جنگ، تباہی اور اختلاف جنم دیتے ہیں کیونکہ وہ صرف اپنے ہی رنگ کو ہرطرف دیکھنا چاہتے ہیں ۔آج کی اس دنیا کو ساون کے اندھوں نے ہی جنونیت، انتہا پسندی، تخریب کاری اور دہشت گردی کا مرکز بنا رکھا ہے۔ بلھے شاہ کے زمانے میں یہ بیماری زیادہ تر طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے بڑے بڑے لوگوں کو ہوتی تھی مگر اب تو ہر ایک چوپائے کو کلغی لگ گئی ہے ، ہر ایک گیدڑ نے شیر کی کھال پہن لی ہے اور یہ سب ساون کے اندھے، ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں ہر رنگ مٹا کر اپنا رنگ جمانا چاہتے ہیں ماضی میں ایسے تباہ کن ساون آئے اور گزر گئے اب ساون لمبا ہے تو اس ’’سائونی‘‘ سے فکری لڑائی بھی لمبی ہو گی۔
مجھ ساون کے اندھے، جھلے، منہ کالے اور من چلے کا خیال ہے کہ یہ دنیا میری ہے، میری ہی رہے گی، اس میں جو میں چاہوں گا وہی ہو گا میرا ہی حکم، میری ہی فکر اور میری ہی سیاست چلے گی۔ میں ساون کے زور پر اپنا چابک چلا رہا ہوں مگر سورج کی کرنیں مجھے ڈراتی ہیں یہ جب آتی ہیں توساون کی ہریالی اور اندھوں کو ہرا ہرا دِکھنا بند ہو جاتا ہے پھر قوسِ قزح کے رنگ نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
تاریخ میں کئی بار طویل عرصے تک ساون کے اندھے چھائے رہے جبر و استبداد کے دور کئی دہائیاں چلے، ساون کی بارش ہیمنگوے کی علامتی تباہی بنتی رہی، عقل و خرد کے سوتے خشک ہوتے رہے، جہالت راج کرتی رہی۔ یہ سب ہوتا رہا ہے مگر ساون کتنا بھی لمبا چلے اس نے بالآخر ختم ہونا ہوتا ہے۔ اندھے کتنا ہی جیت لیں بالآخر بینائوں نے نابینائوں پر غالب آنا ہوتا ہے۔ بصیرت اور بصارت نے جہالت و جبر کو گرانا ہوتا ہے۔ ساون کے ہرے ہرے کو جب مظلوم کا سرخ خون لگتا ہے تو پھر نہ ساون رہتا ہے نہ ہرا رنگ۔ پھر خون رنگ ہر دوسرے رنگ کو کھا جاتا ہے۔ میں ساون کا اندھا ، بس اسی خون رنگ سے ڈرتا ہوں یہ حبس، جبر اور ظلم کو توڑتا ہے اسے انقلاب کہہ لیں، جمہوریت کی آزادی کہیں یا فکر و نظر کی جولانی کا نام دیدیں۔ کوئی تو ڈاکٹر ساون کے اندھے پن سے چھٹکارا دلائے یا کوئی نیا ایس ایم ظفر ہرے ہرے کی بجائے دوسرے رنگ بھی دکھائے۔