دونوں طرف سے اللّٰہ اکبر کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے پر راکٹ اور گولیاں برسا رہے تھے ۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان یہ معرکہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا جب افغان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ مولوی وکیل احمد متوکل بھارت کے دورے پر ہیں اور ایک ایسی انتہا پسند ہندو حکومت کے مہمان ہیں جسکی اصل پہچان اسلام دشمنی اور مساجد کو شہید کرنا ہے ۔ متوکل کے دورہ بھارت کے دوران بی جے پی کی حکومت اور افغان طالبان کی طرف سے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا جس پر پاکستان نے کئی تحفظات کا اظہار کیا ۔ اس دورے کے دوران افغانستان کے راستے سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا جسکے جواب میں پاکستان نے افغانستان میں حملہ آوروں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ۔ ان حملوں میں پاکستان کیخلاف جنگ میں مصروف نور ولی محسود کو ٹارگٹ بنایا گیا۔وہ بھارتی میڈیا جو ہمیشہ پاکستان پر افغان طالبان کی سرپرستی کا الزام لگایا کرتا تھا نور ولی محسود کے ٹھکانوں پر حملے کے بعد پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کا الزام لگانے لگا۔حسب توقع بھارت نے افغان طالبان کی خوب حوصلہ افزائی کی اور طالبان نے گیارہ اکتوبر کو پاک افغان بارڈر پر واقع کئی پاکستانی چیک پوسٹوں پر منظم حملے کر دیے۔ ان حملوں میں پاکستان کی سول آبادی کو بھی نقصان پہنچا ۔ خلاف توقع پاکستان کا جواب بہت سخت تھا ۔ پاکستان نے ناصرف بہت سی افغان چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا بلکہ کئی افغان چیک پوسٹوں پر قبضہ بھی کر لیا افغان طالبان کی عبوری حکومت کی اس پالیسی کے بعد ملا ہیبت اللہ ، اشرف غنی، حامد کرزئی ، ڈاکٹر نجیب اللہ ، نور محمد ترکئی اور سردار داؤد کی حکومتوں میں فرق ختم ہو گیا ہے ۔ ایک فرق ابھی قائم ہے ۔ بہت سال پہلے ملا محمد عمر ایک مختصر عرصے کیلئے افغانستان کے حکمران بنے تھے ۔ 1996 ء سے 2001 ء کے دوران ان کی حکومت نے پاکستان کیساتھ محاذ آرائی کی پالیسی سے گریز کیا جسکے باعث بھارت نے پاکستان پر افغان طالبان کی سرپرستی کا الزام لگانا شروع کر دیا ۔ اس الزام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملا محمد عمر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کی کھل کر مذمت کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر افغانوں کو غیر ملکی تسلط کیخلاف مزاحمت کا حق ہے تو پھر کشمیریوں کو بھی بھارتی تسلط کیخلاف مزاحمت کا حق ہے ۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے جو پالیسی اختیار کی اُس کے باعث پاکستان اور افغان طالبان میں اختلافات پیدا ہوئے لیکن پاکستان کی کوششوں سے ہی افغان طالبان اور امریکا میں دوحہ امن معاہدہ ہوا جسکے تحت امریکی فوج افغانستان سے نکل گئی اور طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آجکل پاکستان کی موجودہ حکومت اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں۔ٹرمپ کابل کے قریب بگرام ایئر بیس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان نے ٹرمپ کی اس خواہش کا احترام نہیں کیا اور افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کو مسترد کر دیا ۔ پاکستان کے اس موقف کے بعد افغان طالبان کو اسلام آباد کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ لیکن افغان طالبان نے بھارت کے ساتھ قربتیں بڑھا کر پاکستان پر دباؤ بڑھانے کوشش کی ۔ اس کوشش کا نتیجہ پاکستان اور افغانستان میں سرحدی جھڑپوں کی صورت میں نکلا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان کی سکیورٹی فورسز بھارت کی ’’پراکسی‘‘کا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ پاکستان کے ارباب اختیار اور افغان طالبان دونوں کو احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ دونوں اطراف کلمہ گو مسلمان ہیں اور دونوں ہی اپنے آپ کو حق پر قرار دیتے ہیں۔افغان طالبان نعرہ تکبیر بلند کر کے پاکستانیوں کو امریکا کا غلام قرار دیتے ہیں اور پاکستانی بھائی نعرہ تکبیر بلند کر کے افغانوں کو مودی کا یار قرار دیتے ہیں ۔ پاکستان یہ مت بھولے کہ افغان حکومت کی پالیسی اور افغان عوام کی سوچ میں ہمیشہ سے بہت فرق ہے ۔ 1947 ء میں جب پاکستان قائم ہوا تو افغان حکومت نے ابتدا میں پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن نور المشائخ فضل عمر(ملا شور بازار ) نے کشمیر میں جہاد کا فتویٰ دیا اور افغان قبائل بھارتی فوج سے لڑائی کیلئے مظفر آباد کے راستے سرینگر تک جاپہنچے۔میں نے برٹش لائبریری لندن کے انڈیا آفس ریکارڈ میں وہ دستاویز خود دیکھی ہیں جو بتاتی ہیں کہ 1947 ء میں کابل میں برطانیہ کا سفارتخانہ لندن کو اطلاع دے رہا تھا کہ ملا شور بازار کابل میں بیٹھ کر اپنے مریدوں کو کشمیر بھیج رہے ہیں لیکن افغان حکومت اُنہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔پاکستان کی لڑائی افغان حکومت سے تو ہو سکتی ہے لیکن افغان عوام سے کوئی لڑائی نہیں ہونی چاہیے ۔ افغانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب پاکستان قائم ہوا تو انکی حکومتوں نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کیخلاف سازشیں شروع کردیں ۔بھارتی وزیر اعظم نہرو نے افغانستان کے راستے سے 1948 میں شمالی وزیرستان میں فقیر ایپی کو مدد فراہم کی ۔ نہرو نے فقیر ایپی کو یہ تاثر دیا کہ پاکستان کی نئی حکومت سرکار برطانیہ کا تسلسل ہے حالانکہ قائد اعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بطور گورنر قبول نہیں کیا تھا۔ یہ نہرو تھا جس نے ماؤنٹ بیٹن کو بھارت کا گورنر جنرل بنایا ۔ جب فقیر ایپی نے دتہ خیل اور عیدک میں پاکستانی فورسز پر حملے کئے تو اُن کے لشکر پر ایئر فورس نے بمباری کی ۔ مارچ 1951ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی درخواست پر مفتی اعظم فلسطين مفتی امين الحسینی بذریعہ طیارہ وانا پہنچے ۔ انہوں نے وزیر اور محسود قبائل کے عمائدین کو بتایا کہ سرکار برطانیہ نے مجھے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے لیکن مجھے حکومت پاکستان نے اپنا پیامبر بنا کر آپ کے پاس بھیجا ہے ۔انہوں نے پختون قبائل سے درخواست کی کہ پاکستان سے لڑائی بند کردیں ۔قبائل نے مفتی امین الحسینی کے سامنے پاکستان کے ساتھ وفاداری کا اعلان کر دیا ،یہ اعلان بھارت کیلئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد 16 اکتوبر 1951ء کو ایک افغان باشندے سید اکبر نے راولپنڈی میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا۔ 1960 ء میں افغان فورسز نے باجوڑ پر حملہ کیا جو پسپا کر دیا گیا۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران افغان فورسز نے مہمند پر حملہ کیا جسے مقامی قبائل نے پسپا کر دیا۔ پھر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا تو کابل میں افغان حکمرانوں نے جشن منایا۔ پشتونستان اسٹنٹ کھڑا کیا گیا آج بھی کابل میں پشتونستان چوک موجود ہے۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے افغان مزاحمت کاروں کی بھر پور مدد کی جبکہ بھارت ماسکو کے ساتھ کھڑا رہا ۔ افسوس کہ آج افغانستان میں پاکستان کیخلاف وہی سازشیں ہو رہی ہیں جو کرزئی اورا شرف غنی کے دور میں ہو رہی تھیں ۔ افغان طالبان کی موجودہ حکومت ملا محمد عمر کی پالیسی سے ہٹ رہی ہے۔ گزارش یہ ہے کہ ناں تو ملا ہیبت اللہ کی عبوری حکومت اشرف غنی بنے اور ناں شہباز شریف کی حکومت جنرل پرویز مشرف بنے ۔ پاکستان اور افغانستان کے علماء کو چا ہئے کہ دونوں ممالک میں مفاہمت کیلئے کوئی کردار ادا کریں۔ اُن علما کو اس معاملے سے دور رکھیں جنہوں نے پچھلے دو تین سال میں مفاہمت کی بجائے غلط فہمیاں بڑھائیں ۔سعودی حکومت نے پاک افغان کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس سلسلے میں سعودی عرب کو بھی ثالث بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان کو افغانستان اور ایران کے ساتھ امن ودوستی کے ساتھ ساتھ داخلی معاملات بھی بات چیت سے طے کرنے کی ضرورت ہے۔اسلام آباد کو خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے ساتھ نیا سیاسی محاذ کھولنے سے گریز کرنا چاہئے۔