ہم ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘کی باتیں سنتے بڑے ہوئے ہیں۔ ’’تزویراتی گہرائی‘‘ کی اس جنگی حکمت عملی کا بنیادی ستون یہ رہا کہ قومی سلامتی کے خطرات کو وطن عزیز کی طرف بڑھنے سے پہلے ہی مغربی سرحد کے پار ختم کردیا جائے۔ ’شروع میں ’اسٹرٹیجک ڈیپتھ ڈاکٹرائن‘‘ متعارف کروانے کا کریڈٹ افواج پاکستان کے سپہ سالار جنر ل اسلم بیگ مرزا کو دیا جاتا تھا مگر پھر انہوں نے بھی یہ بھاری بوجھ اُٹھانے سے انکار کردیا۔غالباً2017ء میں رضا رومی کے انگریزی اخبار میں شائع ہونیوالے ایک مضمون کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ میں نے کبھی یہ ’’شکست خوردہ تصور ‘‘پیش نہیں کیا۔انہوں نے فرمایا کہ آرمی چیف کا منصب سنبھالنے کے بعد 25اگست1988ء کو جب پہلی بارجی ایچ کیو میں افسروں اور جوانوں سے خطاب کیا تو اسٹرٹیجک ڈیپتھ سے متعلق اپنا نظریہ سامنے رکھا اور کہا ’’تین ملک پاکستان، ایران اور افغانستان آزاد،مضبوط اوراپنی اصلی حالت میں اُبھر کرسامنے آرہے ہیں۔ یہ تینوں ملک اپنی سانجھی تقدیر کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ متحد ہو کر طاقت کے گڑھ میں تبدیل ہوسکیں اور یہی مسلم دنیا کی تزویراتی گہرائی ہے۔ جنرل صاحب کے اس اعلان لاتعلقی کے بعد افغانستان سے متعلق اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا ڈاکٹرائن لاوارث ہوچکا ہے کیونکہ کامیابی کے ہزاروں باپ ہوتے ہیں مگر ناکامی کی ولدیت کوئی قبول نہیں کرتا۔
یادش بخیر،16اگست 2021ء کو طالبان کابل میں داخل ہوئے تو پاکستان بھر میں اس مہم جوئی کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ یعنی تزویراتی گہرائی کے ریاستی بیانئے کی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے اب افغانستان پاکستان کا حصہ بن گیا ہے۔ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس کامیابی کا کریڈٹ لینے افغانستان جا پہنچے اور کابل کے ایک پنج تارہ ہوٹل کی لابی میں چائے سے جی بہلاتے ہوئے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، پریشان ہونیکی ضرورت نہیں،سب ٹھیک ہو جائیگا۔ خواجہ آصف نے فرمایا، طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا،اللہ اکبر۔ ڈ ھنڈ و ر چیوں نے ڈھول کی تھاپ پر منادی شروع کردی اور قوم کو یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا کہ جو کام حمید گل نہ کرسکے،وہ فیض حمید نے کردکھایا۔اس کے بعد جب فاتح کابل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پشاور کے کورکمانڈر بنے تو تحریک طالبان پاکستان کیساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا گیا۔ جنگ بندی کی آڑ میں ان دہشت گردوں نے ایک بار پھر پاکستان میں قدم جمانا شروع کردیئے۔اس دوران وزیراعظم عمران خان طالبان کی وکالت کرتے رہے اور انکا مقدمہ بہت زبردست انداز میں عالمی فورمز پر پیش کرتےرہے۔ 29نومبر2022ء کو جب جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک ساتھ رخصت ہوئے تو تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرکے پھر سے حملے شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ جب طبلچی اور ڈھنڈورچی جھوٹی اور غیر حقیقی کامیابیوں کے گن گارہے تھے تب بھی یہ گزارشات پیش کی تھیں کہ کابل میں طالبان کی آمد کسی طرح بھی پاکستان کیلئے خیر کی خبر نہیں۔ کچھ عرصہ بعد ہی پاک افغان بارڈر پر لگی باڑ اکھاڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور افغان طالبان کی طرف سے واضح کردیا گیا کہ ہم اس سرحد کو نہیں مانتے۔ پھر مغربی سرحد پر اشتعال انگیزی کا آغاز ہوگیا۔سرحد پار سے حملے ہونے لگے۔افغانستان ان طالبان کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا جو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کے بعد وہاں جا کر چھپ جاتے۔ پاکستانی طالبان کے ہاں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ اگر افغانستان میں امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دی جاسکتی ہے تو پاکستان میں بھی فوج کیخلاف کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ افغان طالبان ان جنگجوؤں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور وعدوں کے برعکس انکا راستہ روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ حکومت پاکستان نے جب ان خوارج کو پاکستانی سرحد سے کہیں دور آباد کرنے کی تجویز دی تو افغان حکومت نے دس ارب روپے کا تقاضہ کیا ۔ اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان یہ رقم ادا کرنے پر بھی تیار ہوگئی مگر پاکستان پر حملے کرنیوالے دہشتگردوں کی سرپرستی ختم نہ کی گئی۔
پاکستان کو مغربی سرحد کی طرف سے جو چیلنجز درپیش ہیں وہ محض عسکری نوعیت کے نہیں ہیں۔ سفارتی، سیاسی،تجارتی اور معاشی حوالوں سے بھی پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اس آگ کو بجھانے کے بجائے مزید بھڑکانےمیں دلچسپی رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو بیک وقت کئی محاذوں پر چومکھی لڑائی کا سامنا ہے۔ اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے جس نظریئے کو تزویراتی گہرائی سمجھا گیا،وہ دراصل تزویراتی کھائی تھی اور ہم اس میں گرتے چلے گئے۔ سائبیریا کے برفانی علاقوں میں لوگ شکار کرنے کیلئے ایک خنجر پر کسی جانور کا خون لگا کر اسے برف میں گاڑ دیتے ہیں۔ برفانی بھیڑیا خون کی خوشبو سونگھتا ہوا آتا ہے اور اسے چاٹنا شروع کردیتا ہے۔ تیز دھار خنجر کی نوک سے اس کی زبان کٹ جاتی ہے، وہ اپنا خون چاٹتے بےہوش ہوکر گرجاتا ہے۔ہمارے منہ کو خون لگا ہوا تھا،طالبان نے اس کمزوری کا فائدہ اُٹھایا اور تزویراتی گہرائی کا جھانسہ دیکر ہمیں شکار کرلیا۔ حالیہ پاک افغان جنگ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ طالبان پر انحصار اور اعتماد کرکے نہایت سنگین غلطی کا ارتکاب کیا گیا۔ جن کیلئے ریاست پاکستان نے برسہا برس تک امریکی دباؤ کا سامنا کیا، وہ کم ظرف پہلے امتحان میں ہی ناکام ہوگئے اور دہلی جاکر بھارت سے اتحاد کرلیا۔ کچھ لوگ تاریخ اور حقائق کو مسخ کرکے ہمیںڈرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ روس، امریکہ اور نیٹو کے انجام سے سبق سیکھیں۔ کیا آپ بھول گئے ،ایوب خان کے دور میں افغانستان نے باجوڑ پر حملہ کرکے ڈیورنڈ لائن کو روندنے کی کوشش کی تو منہ کی کھائی۔میدان جنگ میں شکست کھانے کے بعد افغانستان نے بلوچستان اور موجودہ صوبہ خیبرپختونخوا میں سازشوں کے ذریعے بغاوت برپا کرنے کی کوششیں شروع کردیں تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکومت پاکستان کو بادل نخواستہ جوابی حکمت عملی تیار کرنا پڑی۔روس کو امریکی سازو سامان اورافواج پاکستان کی کامیاب جنگی حکمت عملی نے شکست دی۔ ’’بچے‘‘ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جائیں، اپنے ’’باپ‘‘ کیخلاف نہیں لڑ سکتے۔یہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔