میرا سیاست سے اتنا ہی تعلق ہے یا ہو سکتا ہے جتنا کسی عام پاکستانی کا یعنی میں نہ پیشہ ور سیاستدان ہوں نہ کرسی اقتدار کا متمنی۔ میری سیاست صرف اتنی ہے کہ اس ملک کے لوگوں کی صدیوں پرانی مشکلات اور مصائب میں کمی کرنےکیلئے کچھ کر سکوں تو ضرور کروں۔ اپنے ارد گرد کے حالات سے وہی لوگ بے خبر رہ سکتے ہیں جنکے ضمیر خوابیدہ ہیں یا جنہیں محض اپنی ذات سے دلچسپی ہے اگر آپ اپنا شمار ایسے لوگوں میں نہیں کرتے تو پھر آپ کو اپنے ارد گرد رہنے والوں کی کی محرومیوں کا احساس بھی ہوگا ،اگر آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری نہیں تو پھر آپ یہ غور بھی کریں گے کہ آبادی کی اکثریت محرومیوں کا شکار کیوں ہے اور اگر آپ دل درد مند رکھتے ہیں تو پھر موجودہ خرابیوں کو دور کرنے کیلئے آگے بھی بڑھیں گے عملاً نہ سہی تحریری طور پر ہی سہی ۔جلسے میں نہیں تو گھر میں ،محلے میں، اپنے حلقہ احباب میں جہاں بھی موقع ملے گا آپ اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کریں گے اس نظام کے خلاف آواز بلند کریں گے جو چند افراد کی جھولیاں بھر رہا ہے اور غالب اکثریت کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رکھ رہا ہے یہی سیاست ہے۔
میں نے یہ معروضات اس لیے پیش کی ہیں کہ میرے کچھ قارئین اور اپنے دوستوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ میں سیاست میں بہت پڑ گیا ہوں۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے خول میں دبا رہوں اور ارد گرد سے آنکھیں بند کر لوں اور یہ تاثر دوں کہ’’سب اچھا ہے‘‘ کاش میں ایسا کر سکتا مگر افسوس کہ سب اچھا پہلے تھا نہ اب ہے اور نہ کسی ما فوق الفطرت کارنامے سے’’تنی منٹی‘‘ درست ہو سکتا ہےـ اس کیلئے بے غرض اور اپنے مفادات کی قربانی دینے والے بہت سے افراد کی ضرورت ہے اس کیلئے لوگوں کے پاس پہنچنے اور ان کے دکھ درد معلوم کرنے کی ضرورت ہے اس کیلئےدیار غیر میں بیٹھ کر ملک کے عزیز کیلئے سوچنے کی ضرورت ہے اس کیلئے گھر گھر جانے ہر دروازے پر دستک دینے اور انہیںنئی صبح کی نوید دینے اور اس کو قریب لانےکیلئے کام کرنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟
کیا ایسے کوئی آثار نظر آتے ہیں کہ آج نہیں تو کل یہ کام شروع ہوگا مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ایسے کوئی آثار تک نہیں ہیں ذرائع ابلاغ استعمال ہو رہے ہیں جو استعمال ہونے سے انکاری ہیں وہ زیر عتاب ہیں ۔سیاست دانوں، دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں کا ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا ہے جو اس ملک کی غالب اکثریت کی قیمت پر ایک محدود طبقے کے مفادات کا ڈھول پیٹ رہا ہے اور اسی طبقے کا خوشہ چین ہے ۔ میں معروف معنی میں سیاست نہیں کر رہا مگر ملک عزیز کا ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض پورا کر رہا ہوں میری آواز کمزور سہی مگر حق و صداقت کی قوت میرے ساتھ ہے اس لیے میں اپنی استطاعت کے مطابق یہ کام کرتا رہوں گا۔ میری نظر کے سامنے ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں ہمیں کھل کر اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہیے تھا مگر حکومت وقت نے قانون اور ضابطوں کی دھمکیوں سے حق و صداقت پر سمجھوتہ نہ کرنیوالوںکے قلم چھین لیے ۔ سانحہ مشرقی پاکستان کو ہی لیجئے جن لوگوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے اور اس مملکت خداداد کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے انہیں اچھی طرح سے یاد ہوگا کہ جب مشرقی پاکستان کے عوام اپنے جائز حقوق کے مطالبات کی جدوجہد کر رہے تھے تو اسی بے ضمیر ٹولے نے انہیں شر پسند اور دہشت پسند جیسے الفاظ سے یاد کیا اگر آپ اس زمانے کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو اسی قسم کے دلائل اور القابات سے جھوٹ کا پرچار کیا گیا اور پھر سب نے دیکھا کہ جھوٹ کا انجام کیا ہوا۔ ہم نے ملک کےحصے کروالئے مگر اپنی جہالت عصبیت اور کم عقلی کو تسلیم کرنے کی بجائے انہی باتوں پر اصرار کرتے رہے اور کر رہے ہیں ذرا سوچیے آپ کس طرف جا رہے ہیں؟ تاریخ کبھی ایسے لوگوں کو معاف نہیں کرتی جو اس کا رخ پہچاننے کی صلاحیت سے محروم رہے اور اگر آج بھی آپ نے عقل و خرد کی باگ ہاتھ میں نہ لی اور ویسے ہی حالات پیدا کرتے رہےآپ کی مشکلات میں ناقابلِ توقع اضافہ ہو سکتا ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے کسی غیر معمولی فہم دانش کی ضرورت نہیں ہے بس ذرا ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔اب آپ ہی بتائیں اس قسم کے رویوں کو دیکھتے ہوئےمیں سیاست سے علیحدہ رہ سکتا ہوں؟ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا۔ ہم نے امیدوں وعدوں اور دلاسوں کے سہارے 2024 کا سال گزار دیا 365 دن انتظار کی سولی پر لٹکا دیے نئے سال کا سورج طلوع ہوئے نو ماہ سے اوپر ہو گئے ہیں میں چاہتا ہوں کہ نئی بات لکھوں لیکن بہتے دریاؤں کا رنگ بدلا ہے نہ سورج کی تمازت میں تیزی آئی ہے اور امیدوں وعدوں اور دلاسوں کی بارات بھی روانہ نہیں ہو پائی۔
مجھے کمی نہیں ہوتی کبھی محبت میں!
یہ میرا رزق ہے اور آسماں سے اترا ہے