کامیاب افراد کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ سب سادگی اختیار کرنیوالے تھے۔ دیکھیں! ہم مسلمان ہیں۔ ہمارے نبی ﷺنے ہمیشہ سادگی اختیار کی اور قناعت اپنائی۔ اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دی ۔ یہ غزوئہ خندق کا واقعہ ہے۔ صحابہ کرامؓ آپﷺ کے گرد حلقہ بناکر بیٹھے ہوئے تھے۔ صحابہؓ نے آپﷺ سے بھوک کا ذکر کیا۔ بھوک کی وجہ سے صحابہ کرامؓ نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے۔ یہ سن اور دیکھ کر آپﷺ نے اپنے شکم مبارک سے کپڑا اٹھایا تو آپ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔یہ ہوتا ہے قائد جو عوام کے دُکھ درد میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ ایک دن حضرت عمرؓ آپﷺ کے حجرے میں داخل ہوئے۔ آپﷺ کھجورکی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھےاور آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑچکے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آنحضرتﷺ نے انہیں روتے دیکھا تو پوچھا اے عمر! کیوں روتے ہو؟ عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میں کیوں نہ روؤں؟ چٹائی نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دیے ہیں۔ آپ دونوں جہانوں کے سردار ہیں اور یہ حالت ہے، جبکہ قیصر و کسریٰ کے بادشاہ ریشم کے بچھونوں پر سوتے ہیں۔‘‘آپﷺ نے فرمایا: ”اے عمر! یہ دنیا کی سہولتیں بہت جلد ختم ہوجائینگی، جبکہ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ اُن کیلئے دنیا کی سہولتیں ہیں جبکہ ہمارے لیے آخرت کی نعمتیں ہیں۔ہمارے حکمران یہ اسوئہ حسنہ سامنے رکھیں اور اپنے گریبانوں میں ذرا جھانکیں کہ انہوں نے کس طرح قومی خزانہ لوٹ کر دنیا کا سامان جمع کیا ہوا ہے۔آپ ﷺاجتماعی مال میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپؐ کے پاس صدقے کی بہت ساری کھجوریں لائی گئیں۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ان کھجوروں سے کھیل رہے تھے۔ اسی دوران ایک کھجور منہ میں ڈال لی تو آپﷺ نے منہ میں انگلی ڈال کر کھجور باہر نکال دی اور فرمایا کہ ہم آلِ محمد کیلئے یہ جائز نہیں ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ زکوٰۃکا مال بھی ہڑپ کرجاتے ہیں۔ایک اور نکتےکی طرف آجائیں۔آپ ﷺ جب گھر پر ہوتے تو اپنا کام خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے۔ کئی کاموں میں گھر والوں کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ دیکھیں! ایک نبی اور ایک قائد ہوتے ہوئے اتنی عاجزی، اتنی تواضع ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ یہ کروفر نہیں ہونا چاہیے۔ انسان کو اللہ کا بندہ بن کر رہنا چاہیے۔یہ تو تھے نقوشِ سیرت کے چند واقعات۔ اب آپ صحابہ کے بھی چند واقعات ملاحظہ فرمائیں۔حضرت عمرؓ کے طرزِ حکمرانی کو دیکھ لیں کہ کس قدر سادگی پسند تھے۔حضرت عمر فاروق ؓکا دورانِ خلافت معمول تھا کہ وہ رات کو اپنے غلام اسلم کیساتھ شہریوں کےحالات سے آگہی کیلئے شہر میں گشت کیا کرتے تھے۔ ایک رات و ہ گشت کرتے تھک گئے تو ایک مکان کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ گھر کے اندر سے دو عورتوں (ماں بیٹی) کی آوازیں آرہی تھیں۔ ماں بیٹی کو ترغیب دے رہی تھی کہ وہ دودھ میں پانی ملا دے تاکہ دودھ کے زیادہ پیسے ملیں۔ بیٹی نے کہا کہ ماں میں دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی، کیونکہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہے۔ اس پر ماں نے بیٹی کو ڈانٹ کر کہا کہ وہ دودھ میں پانی ضرور ملائے یہاں حضرت عمرؓ یا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھ رہا ۔ لڑکی نے جواب دیا کہ ماں اگر خلیفہ نہیں دیکھ رہا تو کیا ہوا، اللہ تو دیکھ رہا ہے اور یہ کھلا گنا ہ ہے۔ حضرت عمر ؓنے اپنے غلام اسلم کو کہا کہ اس مکان کو پہچان لےاور اسکے مکینوں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے آئے۔ غلام اسلم نے حضرت عمر ؓکو بتایا کہ وہ ایک بیوہ اور اسکی بیٹی کا مکان ہے۔ حضرت عمرؓکو اس لڑکی کی خدا خوفی اور دیانتداری بہت پسند آئی تھی۔ انہوں نے اسکا رشتہ اپنے بیٹے کیلئے مانگ لیا۔ اس طرح وہ ایماندار لڑکی حضرت عمر ؓکی بہو بن گئی۔ انکے بطن سے ام عاصم پیدا ہوئیں۔ ام عاصم جو ان ہوئیں تو انکی شادی مصر کے گورنر عبدالعزیز بن مروان سے ہوئی۔ ام عاصم سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ پیدا ہوئے۔ 99 ہجری میں جب وہ مسند خلافت پر براجمان ہوئے تو انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی اور عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کی۔ ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنی زوجہ محترمہ سے فرمایا: انگور کھانے کو دل چاہتا ہے۔ تمہارے پاس کچھ ہے تو دو میں انگور خریدکر لاؤں۔اس پر محترمہ نے جواب دیا: ”میرے پاس تو کوڑی بھی نہیں ہے۔ آپ امیرالمومنین ہیں اور آپ کے پاس اتنا بھی نہیں کہ انگور خرید کر تناول فرمالیں؟“ اس پر امیرالمومنین نے فرمایا: ”میں اپنے من میں انگور کھانے کی تمنا لیے اگلے جہان سدھار جاؤں، یہ بہتر ہے اس سے کہ بیت المال سے خرچ کروں۔ اس پر ہر مسلمان کا حق ہے۔ “جب حکمران ایسے خداترس تھے تو عوام خوشحال تھے۔ آج ہمارے حکمران عیاش ہیں تو عوام فاقوں سے مررہے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے غیرمسلم حکمرانوں کو بھی دیکھ لیں کہ وہ بھی کس قدر سادگی پسند ہیں اور سرکاری خزانے کا کس قدر لحاظ کرتے ہیں؟ امریکا کے سابق صدر ”ریگن“ کی بیوی وائٹ ہاؤس کے پردے تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ ایوان صدر سے اخراجات کی پیشگی منظوری کیلئے سمری جب ایوان نمائندگان میں گئی تو ایوان نے خرچ کی منظوری دینے سے انکار کردیا کہ موجودہ پردوں کو تبدیل کرنے کی منظوری کا مطلب عوام کے پیسوں کا ضیاع ہوگا۔اسی طرح پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیں۔ بھارت کے ایک سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی بیٹی اپنی ہم جماعت لڑکی کی اس درخواست پر کہ ”مجھے فلاں سوال کا جواب فیکس کردو۔“ یہ کہہ کر معذرت کرلیتی ہے: ”وزیراعظم ہاؤس میں فیکس مشین سرکاری ہے، اس کا پرائیویٹ استعمال امانت میں خیانت ہوگا۔برطانیہ کے سابق وزیراعظم کو دیکھ لیں! سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون دو کمروں کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ جس دن اس نے اقتدار چھوڑا، اگلے دن پوری دنیا نے یہ تصویر دیکھی کہ وہ اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کا سامان باندھ رہا تھا۔ ٹیکسی منگوائی اور سامان لاد کر گھر رخصت ہوگیا۔