• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دنیا کے ذہین فطین لوگوں نے ایک سوال بار بار اٹھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی ذات اتنی بڑی ہے، اسکی انسان سے ایسی کیا دشمنی کہ وہ اسے عذاب دینے کا سوچے۔ آج سے اڑتالیس سال پہلے انسان نے ایک مشن خلا میں روانہ کیا تھا، جسے وائیجر ون کا نام دیا گیا۔ اس وقت اسکی رفتار اکسٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹا ہے۔ قریب پچاس برس سفر کے بعد وائیجر زمین سے ایک نوری دن کے فاصلے پر پہنچے گا، سال نہیں دن۔ ملکی وے کہکشاں کو عبور کرنے میں روشنی کو ایک لاکھ نوری سال لگتے ہیں۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری زمین اور اسکی حیات کائنات میں اسی طرح ہے، جس طرح ریگستان میں ریت کا ایک ذرہ۔ زمین تو کیا، ہمارے سورج کا بھی بڑے ستاروں سے موازنہ ممکن نہیں ۔ UV Scuti ستارہ ہمارے سورج سے سترہ سو گنا بڑا ہے ۔ اس کائنات میں ایک پورے کا پورا ہیرے سے بنا ہو اسیارہ موجود ہے۔ زحل کے چاند ٹائٹن پہ تیل کے سمندر بہہ رہے ہیں۔ بڑے ستارے جب اپنا ایندھن جلا دینے کے بعد پھٹتے ہیں تو کھربوں ٹن قیمتی عناصر خلا میں بکھیر دیتے ہیں۔ اس سب کو دیکھیے اور اپنے آپ کو دیکھئے۔ دنیا کے کسی ملک میں ہیرے یا تیل نکلنے کی دیر ہے، قتل و غارت شروع۔

اس سب کے علاوہ ،تمام تخمینے لگانے کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ اس دنیا میں جو کچھ انسان کو نظر آتا ہے، بشمول کہکشاؤں کے، وہ سب صرف 5فیصد ہے۔ 95فیصد وہ ہے، جو موجود تو ہے لیکن وہ نظر بھی نہیں آسکتا۔ فرض کریں، ایک کاغذ چھت سے گرایا جائے تو وہ آہستہ آہستہ گرنے کی بجائے بجلی کی رفتار سے جا کر زمین پہ گرے اور زمین میں گڑھا بھی ڈال دے۔ ظاہر ہے کہ اس کاغذ پہ کوئی ایسا وزن موجود ہے، جو نظر نہیں آرہا لیکن اسکا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح جب سائنسدانوں نے کہکشاؤں کی رفتار اور دوسرے شواہد دیکھے تو وہ جان گئے کہ 95فیصد نظر ہی نہیں آرہا۔ اسے ڈارک انرجی او ر ڈارک میٹر کہا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ انسان کائنات میں عظیم الشان دولت کے ذخائر دیکھ کر للچا تو سکتا ہے، ان تک پہنچنے کا خواب بھی دیکھ نہیں سکتا۔ سورج کے قریب ترین دوسرا ستارہ پروگزیما سینٹوری چار نوری سال کے فاصلے پر ہے ، پچاس ہزار سال کا سفر۔ خلاباز ایک خلائی مشن میں روانہ ہوں ۔ وہ بچے پید اکرتے اور مرتے رہیں۔ اگر انکا یہ مشن توانائی اور دوسرے مسائل کا شکار نہ ہو تو پھر پچاس ہزار سال بعد انکی کوئی نسل شاید وہاں جا پہنچے۔ خلا میں انسان کی صحت بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو ضروری نہیں کہ کرـہ ء ارض کی طرح کا زندگی کی حفاظت کرتا ہوا سیارہ وہاں موجود ہو ، پانی، آکسیجن، لہلہاتی فصلیں، اوزون اور مناسب درجۂ حرارت۔ اسلئے انسان کی کل تگ و دو یہاں تک محدود ہے کہ وہ یہ سب مال متاع دیکھتا رہے، للچاتا رہے ۔ زیادہ سے زیادہ چاند یا مریخ کو فتح کرنے کا خواب دیکھتا رہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اتنی بڑی کائنات میں ایک چھوٹے سے سیارے پر خدا پانچ ارب قسم کی جاندار اسپیشیز پیدا کرتا ہے۔ وہ پیدا ہوتی ہیں، کھاتی پیتی ہیں اور ناپید ہو جاتی ہیں ۔ ان میں سے ایک یعنی ڈائنو سار سولہ کروڑ سال زندہ رہے ۔ انہیں کسی حساب سے واسطہ نہیں پڑا۔ ایک کمزور سی اسپیشیز ، جس کا سائنسی نام ہومو سیپین ہے یعنی ہم انسان، ہمیں ابھی یہاں تین لاکھ سال ہوئے ہیں اور ہمیں اتنے کڑے حساب سے گزرنا پڑیگا۔ ان لوگوں کا سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تخلیقات کرنیوالی شخصیت کا اتنی چھوٹی مخلوق کو عذاب دینا کوئی سمجھ میں نہیں آتا۔ قبولیت کا معیار ایک طرف تو اتنا ہلکا ہے کہ ایک گندم کے دانے کی بھی جزا دی جائیگی ۔ دوسری طرف ایسا سخت کہ نیت خالص نہ ہوئی تو سونے کا پہاڑ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔

وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان ایک روشن خیال مخلوق ہے ۔ وہ جس شے میں تسکین محسوس کرے ، اس پہ عمل کرنے کیلئے آزاد ہے۔ کوئی کون ہوتاہے پوچھنے والا۔ اب ان لوگوں سے آپ یہ پوچھیں کہ یہ یونیورسٹیوں میں پڑھی ہوئی، کائنات کی ابتدا اور اختتام کے تھیسز لکھنے والی، ستاروں اور سیاروں  کے مدار لکھتی ہوئی ، یہ کیسی روشن خیال مخلوق ہے جو غزہ میں 70ہزار مفلوک الحال انسانوں ، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کر ڈالتی ہے۔ کشمیر سے برما اور عراق سےیوکرین تک، ہر جگہ بے انتہا قتل و غارت۔ ایک انسان کیسے کسی دوسرے کی اولاد قتل کر کے، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل سکتا ہے۔ کیا جو لوگ اپنے جیسوں پہ ایٹم بم پھینک دیتے ہیں ،جب کہ انہیں پوری عقل دی گئی تھی کہ یہ غلط کام ہے ،ان سے حساب نہ لیا جائے؟ یہ کیسا روشن خیال انسان ہے ، جو عالمی جنگوں میں پورے کرۂ ارض پہ خون کی ندیاں بہا دیتا ہے ۔

سائنسدان جس گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ سیاروں کے مدار سے لیکر ڈارک میٹر ، ڈارک انرجی اور بلیک ہولز کا سراغ لگاتے ہیں ، کیا اتنی سنجیدگی کے ساتھ کبھی انہوں نے خدا کے وجود پر غور کیا۔اس سوال پہ غور کہ یہ سب اپنے آپ بن گیا یا منصوبے کے تحت بنایا گیا؟

مغرب میں فیشن یہ ہے کہ خدا کو ماننے والوں کے ان فرسودہ نظریات کا مذاق اڑاؤ ، جنہیں سائنس غلط ثابت کر چکی ہو ۔ ہمارے ہاں بھی اب اسی کی پیروی ہے ۔ جو غیر معمولی عقل پانچ ارب میں سےایک یعنی ہوموسیپینز پہ نازل ہوئی ہے ، وہ خود خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ اگر یہ عقل الہامی نہ ہوتی اور زمین پہ اپنے آپ پید اہوئی ہوتی تو کسی دوسری اسپیشیز کو بھی اب تک مل چکی ہوتی ۔

باقی اس دنیا میں جبلتوں کی ایک ہی کہانی ہے ، جو بار بار دہرائی جا رہی ہے ۔ جو آج پاکستان میں ہو رہا ہے، بنگلہ دیش میں ہو چکا ۔ یورپ اور امریکہ میں کئی بار ہو چکا ۔ چند لوگوں کی طرف سے دائمی اقتدار اور پورے ملک کے وسائل پہ قبضہ کرنے کی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ ایک ہی کھیل ہے ، جو بار بار دہرایا جا رہا ہے ۔

تازہ ترین