بیٹیاں جوان ہو گئیں۔ ماں باپ سپرد خاک۔ بھائی ہلاک۔ گھر مسمار کوئی 10سال بعد اپنی فیملی کو دیکھ رہا ہے کوئی 20سال بعد اپنی ماں سےگلے لگ رہا ہے۔ غزہ میں تباہی اور ہلاکتوں کے مناظر دیکھتے دیکھتے برسوں گزر گئے تھے اب کھنڈرات کے درمیان یہ معانق ملاقاتیں ایک امید ایک آس دلارہی ہیں۔شرم الشیخ میں مسلمان حکمرانوں کے چہروں پر ایسی تمتماہٹ ہے جو درباریوں کو شہنشاہ کی ایک جھلک سے ملتی ہے سامراج پھر جیت گیا ہے مصر انڈونیشیا قطر ترکی پاکستان کے مسلمان حکمرانوں کا سہارا لیکر امریکہ پھر مشرق وسطیٰ میں فیصلہ کن حیثیت پر براجمان ہو گیا ہے لیبیا ،عراق میں لاکھوں لاشیں گرانے غزا میں صرف دو سال میں 70ہزار بچے مائیں بزرگ موت کے اندھیروں میں دھکیل لیں، غزا میں جنگ بندی کی قراردادیں بار بار ویٹو کر لیں، نیتن یاہو جیسے فلسطینیوں کے خون کے پیاسے کی پیٹھ ٹھونکنے کے بعد امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ پھر اپنے نام کر لیا ہے۔ کوئی اسلامی ملک اگر غیر مسلموں کیخلاف اس طرح ہلاکتوں کے بازار گرم کرتا تو امریکہ اور مغربی طاقتیں اسکا کیا حشر کرتیں مگر یہاں اسرائیل کے اس سفاک وزیراعظم کو غزا امن کا سارا کریڈٹ دیا جا رہا ہے۔ اس طرح اسرائیل نے اپنی سیاسی دفاعی سفارتی برتری بھی تسلیم کروا لی ہے اس سے مستقبل کی صف بندی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ستمبر اکتوبر نے ثابت کر دیا ہے کہ 50 سے زیادہ مسلم ملکوں میں نہ تو سیاسی سوجھ بوجھ ہے نہ سفارتی فہم اور نہ ہی عسکری قوت کہ وہ ایسے مسائل خود حل کر سکیں ۔ ولادی میر لینن نے کہا تھا کہ بعض عشرے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور بعض ہفتے ایسے آ جاتے ہیں جب ان میں عشرے رونما ہوتے ہیں۔ ستمبر اکتوبر کے یہ ہفتےکچھ ایسے ہی تھے بہت کچھ برپا ہو گیا۔ افغان وزیر خارجہ کا بھارت کا ایک ہفتے کا دورہ، افغانستان کے پاکستان کی کارروائی پر جوابی حملے، سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت، کے پی کے میں عمران خان کا وزیراعلیٰ تبدیل کرنے کا فیصلہ، دفاعی حلقوں،مسلم لیگ نون، پی پی پی، جمیعت علمائے اسلام کی طرف سے نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی نامزدگی کی شدید مخالفت، پشاور ہائی کورٹ میں نئے وزیراعلیٰ کا حلف رکوانے کی کوششیں، غزا میں امن معاہدے کا اعلان صدر ٹرمپ کا اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب مصر میں معاہدے کے ثالثوں کے دستخطوں کی تقریب، چین کی طرف سے پاکستان افغانستان دونوں کو فوجی تصادم روکنے کا مشورہ، انڈیا کی طرف سے دوبارہ دھمکیاں، تحریک لبیک پاکستان کے فلسطین کے حق میں اس وقت پر تشدد مظاہرے جب امن معاہدہ ہو چکا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں۔ انسانوں پر ٹیکنالوجی غلبہ پا رہی ہے ہلاکت خیز اسلحے کے تجربے جاری ہیں۔ فلسطین میں ہلاکتیں روکنے کیلئےیہ معاہدہ ٹرمپ کی تجاویز کہلا رہا ہے۔ اس پر نو اکتوبر کو اسرائیل اور حماس نے دستخط کیے ہیں۔ ایسے معاہدے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔
اسرائیل اپنی طاقت کے نشے میں ایسے معاہدوں کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں چار مئی 1994ء کو قائم ہونے والی فلسطینی ریاست شروع سے ہی بہت نازک اور کمزور رہی ہے فلسطینی 1948 سے جو قربانیاں دیتے آ رہے ہیں اور جس صبح آزادی کامل کیلئے وہ اپنا خون بہاتے رہےوہ ایسی کمزور ریاست کے قیام کیلئے نہیں تھی، فلسطینی اتھارٹی کا کل رقبہ 6020مربع کلومیٹر ہے آبادی 52لاکھ جبکہ اسرائیل کا کل رقبہ 20770مربع کلومیٹرآبادی ایک کروڑ ،فلسطینی اتھارٹی ویسٹ بینک کا رقبہ 5655کلومیٹر غزہ پر 2007ء سے حماس کا سیاسی کنٹرول ہے۔ اسرائیل کی فوج تقریباً دو لاکھ نوجوانوں پر مشتمل جس میں بری ،فضائی اور بحری افواج شامل ہیں اور محفوظ فوجیوں کی تعداد 4 لاکھ 65 ہزار جو پوری طرح باقاعدہ جدید اسلحے کے استعمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ فلسطین کی اتھارٹی اور 2013ء سے ریاست فلسطین کے پاس بری فوج ہے نہ فضائیہ نہ بحریہ۔ معاہدے کے مطابق غیر ملکی حملے کی صورت میں فلسطین کا دفاع اسرائیلی فوج کرئیگی جبکہ اس پر تو اسرائیلی فوج ہی حملہ آور رہتی ہے اور دفاع کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرنیوالوں میں امریکہ سر فہرست ہے ،جرمنی برطانیہ، اٹلی، فرانس جدید ترین ہتھیار بھی فراہم کرتے ہیں اور فنڈز بھی، دنیا بھر کے یہودی واحد یہودی ریاست کی مالی امداد کو اپنا روحانی فرض سمجھتے ہیں دوسری طرف فلسطینی قانون ساز کونسل موجود ہے ۔نیم صدارتی نظام ہے۔2005 ء سے محمود عباس صدر ہیں اس کے بعد الیکشن ہی نہیں ہوئے۔ فلسطینی محاذ آزادی کےجوان چھ ہزار کی تعداد میں ہیں حماس کے جنگجو 20ہزار سے 30ہزار۔ فلسطین میں ویسٹ بینک میں جانا ہو یا غزا میں داخلہ اسرائیل کے ناکوں کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے ۔ فلسطینیوں کی اپنی تنظیموں کے اندر شدید اختلافات ہیں۔ ستمبر 2025 ء تک دنیا کے 157ملکوں نے ریاست فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے مگر اس سے فلسطین کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ فلسطین کو اب بھی Non member observer state کا رتبہ میسر ہے جو 2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تفویض کیا تھا اس سے اسے مباحثوں میں حصہ لینے کی تو اجازت ہے لیکن ووٹ دینے کا حق نہیں ہے ۔اب جبکہ 193ارکان میں سے 157نے خود مختار ریاست تسلیم کر لیا ہے تو اسکا سٹیٹس بدلنا چاہئے لیکن اسکی مکمل رکنیت کو امریکہ کی ویٹو پاور نے مسلسل روک رکھا ہے۔ مسلم ممالک کے سربراہ اس وقت امریکہ کیلئے داد و تحسین میں مبتلا ہیں۔ وہی امریکہ جو فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل ممبر بھی نہیں بننے دے رہا۔ اس سے امریکہ کی امن دوستی کا قیاس کر لیجئے۔ شرم الشیخ کے اجلاس میں مسلمان ملکوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ 70ہزار فلسطینی شہداء کیلئے فاتحہ خوانی ہی کر لیتے۔ اس معاہدے پر دستخطوں کے بعد بھی اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کا قتل جاری رکھا۔ ایسی آبادی جو اپنوں کی مناقشت کا شکار ہو اور جسے 54اسلامی ملکوں کی طرف سے کوئی سفارتی حمایت بھی میسر نہ آئی ہو۔ جس کے مظلوموں کے حق میں اسلامی ملکوں میں مظاہروں پر پابندی ہو بلکہ غیرمسلم ممالک میں زیادہ مظاہرے ہوئے ہوں۔ جس ریاست کو خود مختاری حاصل نہیں ہے۔ جسکی معیشت کا زیادہ تر انحصار غیر ملکی امداد پر ہے۔ محصولات اور ٹیکس بھی اسرائیل وصول کرتا ہے غربت بڑھ رہی ہے۔ پہلے بہت سے فلسطینی نوجوان اسرائیل میں جا کر مزدوری اور ملازمت کرتے تھے۔ کشیدگی کے باعث وہ دروازے بھی بند ہو گئے ہیں ۔ایسی ریاست کی بقا کیسے ممکن ہوگی؟ امریکہ نے اسرائیل سے گٹھ جوڑ کر کے فلسطینیوں کی خوشحالی کو ہی ویٹو کر رکھا ہے۔