• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور میں حیات آباد کے نام سے ایک بہت بڑا علاقہ ہے۔ حیات آباد ہمیں حیات خان شیر پاؤ کی یاد دلاتا ہے جو صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر رہے۔ اسکے علاوہ نوشہرہ میں حیات شیرپاؤ ریلوے اسٹیشن، لاہور میں شیر پاؤ پل سمیت کئی تعلیمی ادارے حیات شیرپاؤ کے نام پر قائم ہیں۔ انہیں 8فروری 1975ء کو پشاور یونیورسٹی میں ایک بم دھماکے میں شہید کیا گیا ۔ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اپنے بڑے بھائی حیات خان شیر پاؤ کی شہادت کے بعد سیاست میں آئے تھے ۔ حیات خان شیرپاؤ کی شہادت کو نصف صدی گزر چکی اور اب کسی کو یاد نہیں کہ انہیں قتل کرنے کا منصوبہ کابل میں بنایا گیا تھا۔ شیر پاؤ صاحب کے قتل کے بعد ہی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس قتل کی منصوبہ بندی کا الزام اُس زمانے کے اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خان کے صاحبزادے اسفند یار ولی پر لگایا گیا لیکن اُنکا اس معاملے سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ اس کارروائی میں چارسدہ کے دو نوجوان انور اور امجد شامل تھے جنکا تعلق پختون زلمے نامی تنظیم سے تھا جسے نیپ کے رہنما اجمل خٹک کابل سے چلا رہے تھے۔ اجمل خٹک 23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں نیپ کے جلسے پر فیڈرل سیکورٹی فورس (ایف ایس ایف) کی فائرنگ کے بعد اپنے کئی ساتھیوں کیساتھ افغانستان چلے گئے تھے جہاں سردار داؤد نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیاقت باغ میں اپوزشن کو جلسے سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن اپوزیشن نے حکومت کی مرضی کیخلاف جلسہ منعقد کیا جسے روکنے کیلئے حکومت نے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا جس میں نیب کے بہت سے کارکن مارے گئے۔ مارے جانیوالوں کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا۔ اس واقعے نے پاکستان کی سیاست میں جس نفرت اور انتقام کو جنم دیا اُسکا نتیجہ پختون زلمے کی صورت میں نکلا جسکے کارکنوں کو کابل میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی تھی ۔ حیات خان شہرپاؤ کے دونوں قاتل بھی اپنی کارروائی مکمل کر کے واپس کابل پہنچ گئے تھے۔ کابل میں صرف پختون اور بلوچ رہنماؤں کو نہیں بلکہ سندھو دیش کے حامیوں کو بھی پناہ دی گئی تھی جنکو کابل میں بھارت کے سفارتخانے سے پیسے ملتے تھے۔ حیات خان شیرپاؤ کا قتل ایک طرف تو ہمیں پاکستان کی سیاست میں نفرت اور انتقام کے رجحانات کی وجوہ پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی بتاتا ہے کہ افغانستان اور بھارت آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں دہشت گردی کروارہے ہیں۔ عام طور پر اس دہشت گردی کیلئے ان پاکستانیوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو ریاست سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جب لیاقت باغ میں ریاست نے اپنے ہی شہریوں پر فائرنگ کرائی اور حیات خان شیرپاؤ قتل ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ چند سال کے بعد جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو ہٹاکر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ اس پھانسی نے جس نفرت اور انتقام کو جنم دیا اُس نے میر مرتضی بھٹو کو کابل پہنچا دیا۔ جب میر مرتضیٰ بھٹو نے 1981 میں پی آئی اے کے ایک ہوائی جہاز کے اغواء کی ذمہ داری قبول کی تو اجمل خٹک اور میر مرتضی بھٹو دونوں کابل میں موجود تھے۔ بہت سال پہلے میں نے روزنامہ جنگ کیلئے اجمل خٹک کا انٹرویو کیا تو انہوں نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ پی آئی اے کا ہوائی جہاز خود مارشل لاء حکومت نے اغواء کروایا تھا تا کہ میر مرتضی بھٹو پر ہائی جیکنگ کی ذمہ داری ڈال کر پیپلزپارٹی کیخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے جو دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ ملکر بحالی جمہوریت کی تحریک چلانا چاہتی تھی۔ اس ہائی جیکنگ کا مرکزی کردار سلام الله ٹیپو تھا جس نے بعد میں جنرل ضیاء الحق کو 1982ء میں دورہ بھارت کے دوران دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر حاضری کے دوران قتل کرنیکا منصوبہ بنایا۔ منصوبے پر عمل درآمد کیلئے ٹیپو کو ہینڈ گرنیڈ اور کلاشنکوف مہیا کرنا اسکے ایک ساتھی پرویز شنواری کی ذمہ داری تھی۔ پرویز شنواری یہ کام نہ کرسکا ۔ ٹیپو واپس کابل آیا اور اس نے شنواری کو قتل کردیا۔ شنواری کے قتل کے الزام میں افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے حکم پر سلام الله ٹیپو کو کابل میں گولی مار دی گئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ میر مرتضی بھٹو کو شک تھا کہ ٹیپو پاکستانی خفیہ اداروں کیلئے کام کرتا تھا اسی لئے اُس نے دہلی میں جنرل ضیاء کو قتل نہیں کیا لہٰذا مرتضیٰ کی فرمائش پر ٹیپو کو گولی ماری گئی۔ بہرحال پی آئی اے کا ہوائی جہاز اغواء کرنیوالے ٹیپو کو پاکستانی حکومت تو سزا نہیں دے سکی۔ آخرکار اُسے افغان حکومت نے خود ہی کابل میں گولی مار دی۔ کسی دوسرے ملک کی ملی بھگت سے اپنے ہی ملک کیخلاف دہشت گردی کرنیوالے اکثر نوجوانوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو سلام اللہ ٹیپو کا ہوا۔ ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ سلام اللہ ٹیپو کراچی یونیورسٹی سے کابل کیسے پہنچا؟اگر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر نہ لٹکایا جاتا تو اُنکا بیٹا میر مرتضی بھٹو وہ کام نہ کرتا جو اجمل خٹک کابل میں بیٹھ کر پہلے سے کر رہے تھے۔ اگر بھٹو کی حکومت لیاقت باغ راولپنڈی میں اپوزیشن کے جلسے پر فائزنگ نہ کراتی تو اجمل خٹک کابل جاکر پختون زلمے نہ بناتے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ ہم نے پاکستان کی سیاست سے گالی اور گولی کو ختم کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ یاد رکھیں کہ سیاست میں گالی دینے والا خود بھی ایک گالی بن جاتا ہے۔ سیاست میں گولی استعمال کرنیوالا خود بھی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ لیاقت باغ میں گولی چلی، بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا اور نتیجہ پاکستان میں افغانستان کے راستے دہشت گردی کی صورت میں نکلا۔ بھارت نے افغانستان کے راستے سے پاکستان میں بم دھما کے کرائے اور حیات خان شیرپاؤ کو قتل کرا دیا ۔ اس قتل کے بعد ایک سیاسی جماعت پر پابندی لگ گئی لیکن وہ جماعت آج بھی اے این پی کی صورت میں موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ اس پھانسی کا انتقام لینے بھٹو کا بٹیا کابل جا پہنچا اور آخر میں اپنی ہی بہن کے دور حکومت میں پولیس کی گولی کا نشانہ بن گیا ۔ جس نے بھی گولی چلانی ہوتی ہے وہ یا تو انقلاب کا نعرہ لگاتا ہے یا پھر ریاست کو بچانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گولی سے سیاسی مسئلے حل نہیں ہوتے ۔ گزشتہ سال نومبر میں اسلام آباد میں گولی چلی۔ریاست نے کہا ہم نے اپنی رٹ قائم کی۔ اب مرید کے میں تحریک لبیک والوں پر گولی چلا دی گئی۔ ریاست کے پاس گولی چلانے کی وہی وجوہات ہیں جو 1973ء میں لیاقت باغ میں گولی چلانے کے موقع پر بیان کی گئیں ۔ 1973ء سے 2025ء آگیا۔ ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ گولی سے نفرت اور انتقام جنم لیتا ہے۔ نفرت اور انتقام آپ کے نوجوانوں کو کابل کا راستہ دکھاتا ہے جہاں بھارت کو انہیں پاکستان کیخلاف استعمال کرنیکا موقع ملتا ہے۔ اب ایک نوجوان خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ بن گیا ہے۔ اس وزیراعلیٰ کے لب و لہجے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُسے کابل کی پراکسی قرار دنیا بہت سے نوجوانوں کو کابل کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ آپ اپنے لوگوں کیساتھ گالی اور گولی کی زبان میں بات کرنا بند کردیں تو وہ کابل کیوں جائینگے؟ کابل کا راستہ بند کرنے کیلئے آپکو اپنے لوگوں کیساتھ مفاہمت کا راستہ اپنانا ہوگا۔

تازہ ترین