یہ آج سے ٹھیک 74سال قبل 16اکتوبر 1951ء کی دوپہر کا منظر ہے، پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائدملت نوابزادہ لیاقت علی خان عوامی جلسے سے خطاب کرنے راولپنڈی میں واقع کمپنی باغ میں پہنچتے ہیں، پنڈال میں پاکستانی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے ہردلعزیز قائد کا خطاب سننے کیلئے بے قرار ہے، ہر طرف پاکستان زندہ باد کےفلک شگاف نعرے گونج رہے ہیں اور سبز ہلالی پرچم لہرا کر شرکاء کا خون گرمایا جارہا ہے، لیاقت علی خان جلسہ گاہ کے اسٹیج پر پہنچ کر مائیک سنبھالتے ہیں، ابھی وہ اپنے خطاب کا آغا ز’’میرے عزیز ہم وطنو...! ‘‘کہہ کرکرنے ہی لگتے ہیں کہ اگلے ہی لمحے گولی چل جاتی ہے، پنڈال میں بھگدڑ مچ جاتی ہے،پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان خون میں لت پت زمین پر گِر جاتے ہیں،فوری طور پر حملہ آور کو موقع پر ہی گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، تاہم پاکستان سے بے انتہا محبت کرنے والے قائد ملت لیاقت علی خان عوام سے اپنا خطاب جاری نہیں رکھ پاتے اور اپنی جان خالقِ حقیقی کے سپرد کرنے سے قبل آخری کلمات ادا کرتے ہیں کہ خدا پاکستان کی حفاظت کرے....!یہی دعائیہ جملہ انکے آخری الفاظ کے طور پر تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا ،تاہم اسے ایک قومی المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان میں مختلف حکمران برسراقتدار آئے لیکن آج بھی لیاقت علی خان کی شہادت کے محرکات ایک پراسرار معمہ ہیں۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کا شمار تحریک پاکستان کی اُن عظیم قدآور شخصیات میں کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ انگریز سامراج سے آزادی کیلئے قربان کردیا، کرنال کے امیر ترین نواب گھرانے میں جنم لینے والےسادگی پسند لیاقت علی خان حقیقی معنوں میں قائداعظم محمد علی جناح کے دستِ راست تھے، وہ بطور سیکرٹری جنرل آل انڈیا مسلم لیگ بانی پاکستان کے شانہ بشانہ ہر مشکل گھڑی میں ساتھ رہے ، پاکستان بننے کے فقط ایک سال بعد قائداعظم کی وفات کے بعد ملکی حالات اور زیادہ گھمبیر ہوگئے، تاہم انہوں نے قوم کو نظریاتی سمت کی فراہمی کیلئے ہرممکن کوشش کی، کچھ حلقوں کی جانب سے لیاقت علی خان کو سویت یونین کا دعوت نامہ ٹھُکرا کر دورہ امریکہ کو ترجیح دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، میں اس حوالے سے ماضی میں بھی اپنی رائے کا اظہار کرچکا ہوں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا دورہ امریکہ ایک بہترین سفارتی فیصلہ تھا جسکے دوررس مثبت اثرات ہماری خارجہ پالیسی پر آج بھی چھائے ہوئے ہیں، اگر موجودہ حالات میں لیاقت علی خان کے فیصلے کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس زمانے کا سپرپاور سویت یونین آج اکیسویں صدی میں قصہ ماضی بن چکا ہے جبکہ امریکہ کے موجودہ صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شرم الشیخ مصر میں عالمی لیڈران کی موجودگی میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی غیرمعمولی پذیرائی پاک امریکہ سفارتی تعلقات کے عروج کی عکاسی کرتی ہے جسکی بنیادیں لیاقت علی خان نے رکھی تھیں۔میں اپنے ہفتہ وار اخباری کالم میں تفصیلاََ تذکرہ کرچکا ہوں کہ ہندوستان کے بٹوارے کے موقع پر سرحد کے دونوں پار مذہبی بنیادوں پر دنگے فساد کا آغاز ہوچکا تھا، آزادی کے تین سال بیتنے کو آئے تھے لیکن دونوں ممالک میں بسنے والی اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، ایسے نازک لمحات میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنا قائدانہ کردارادا کرتے ہوئےدہلی کا دورہ کیا،انہوں نے دونوں ممالک کی اقلیتوں کے تحفظ کی خاطر بھارت کے پردھان منتری جواہر لال نہرو سےایک ایسے تاریخی معاہدے پر دستخط کئے جسے سفارتی زبان میں لیاقت نہرو پیکٹ یا عرف عام میں دہلی معاہدے کا نام دیاگیا، اس معاہدے کا بنیادی مقصد دونوں ممالک میں مقیم مذہبی اقلیتوں کواحساسِ تحفظ، دنگے فسادات کی روک تھام اور پُرامن ماحول کو فروغ دینا تھا۔ اسی طرح جب پاکستان کو قومی سلامتی کے خطرات لاحق ہوئے تو لیاقت علی خان نے اپنا مُکا لہرا کر دلیرانہ دبنگ انداز سے دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان کا قیام اور بقا کسی عالمی طاقت کی مرہونِ منت نہیں بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر ہے،پڑوسی ملک کےاخبارات بھی لیاقت علی خان کا حب الوطنی سے بھرپور بیان شہ سرخیوں میں شائع کرنے پر مجبور ہوگئے کہ پاکستان ہمیشہ زندہ رہے گا اور اپنے ایمان و حوصلے کے ساتھ! ۔ہمارے بڑے بتلاتے ہیں کہ جب لیاقت علی خان اپنے کامیاب دورہ دہلی کے بعد کراچی پہنچے تو عوام نے انکا والہانہ استقبال کیا، پاکستان کے ہر شہری کو یقین ہو گیا کہ انکاہردلعزیز رہنما کسی عالمی دباؤ یا خوف کے آگے نہیں جھک سکتا ،دونوں ممالک کی اقلیتیں کو یقین تھا کہ لیاقت نہرو معاہدے پر عمل درآمد خطے میں دیرپا امن اور علاقائی سلامتی کا باعث بنے گا۔ تاہم ایک سال بعد لیاقت علی خان کی راولپنڈی میں المناک شہادت ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی جس نے قومی یکجہتی اوراہم مُلکی منصوبوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوکر ڈی ٹریک ہوگیا۔آج شہیدِ ملت کی 74ویں برسی کے موقع پرمیں سمجھتا ہوں کہ لیاقت علی خان کےآخری دعائیہ کلمات میرے جیسے ہر محب ِ وطن پاکستانی کے دل کی آواز ہیں ، آج بھی ملک بھر کی محب وطن اقلیتیں اپنے دن کا آغاز پاکستان کی ترقی و سربلندی کی دعاؤں سے کرتی ہیں اور اختتام پاکستان زندہ باد کے نعرے پر۔میری نظر میں بلاشبہ آج پاکستان بالکل درست سفارتی سمت میں گامزن ہے جسکی داغ بیل لیاقت علی خان نےاپنی سیاسی بصیرت سے رکھی تھیں، تاہم تیزی سے بدلتے عالمی منظرنامے میں ہمیں آج سفارتی سطح پر بہت زیادہ احتیاط کی بھی ضرورت ہے، ہمیں کسی ایک کی خوشنودی کی خاطر اسکے مخالف کو اپنا دشمن بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ افسوس کہ جس عظیم انسان نے پاکستان کی خاطر اپنی پوری زندگی وقف کر دی، اسی کی جان پاکستان کی سرزمین پر ایک پراسرار گولی نے لے لی اور ہم آج تک دن دہاڑے قاتلانہ حملے کے اسباب کا کھوج نہ لگاسکے۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے....!