• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تب میں پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا اورا سکول بھی ایسا جس کے ایک ہی استاد معاشرتی علوم، اسلامیات اور ریاضی پڑھاتے تھے تب ہمیں نہر سویز کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا اور نہ یہ جانتے تھے کہ مصر نے ایسا کیا کیا کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے مل کر مصر پر حملہ کردیا یہ تو جب سبزی والے نے کہا کہ نہر سویز کے بند ہونے سے آلو مہنگے ہو گئے ہیں تو میری ماں نے سبزی والے کی واقفیت عامہ کے ساتھ چار استادوں پر مشتمل میرے اسکول کو بھی کافی سنائیں،حالانکہ میں انہیں بتا چکا تھا ہیڈ ماسٹر صاحب بیچارے تو کسی کلاس کو نہیں پڑھاتے۔ انہی دنوں ، وظیفے کے امتحان کی تیاری کے لئے ہماری کلاس کو بتایا گیا کہ لمبی عبارت کے جال میں نہیں پھنسنا سوال یا تفریق کا ہوگا یا جمع کا یا ضرب کاگھبرانا نہیں۔ اسی مشق میں ہمارے ایک کلاس فیلو سے جب پوچھا گیا کہ 50میں سے کتنےنکالیں کہ باقی صفر بچے تو اس نے کہاکہ پانچ۔شاید یہی زمانہ تھا جب ہمارے ایک وزیر اعظم کے بیان پر ہنگامہ ہوا جس میں انہوں نے مسلمان ملکوں کو صفر+ صفر مساوی ہے صفر کے۔

یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ وزیر اعظم کون تھے حسین شہید سہروردی ! جب ان کے بیان کے خلاف دارالحکومت کراچی میں طالب علم مشتعل ہو کر وزیر اعظم ہائوس پہنچے تو انہوں نے ’’سہروردی مردہ باد‘‘ کے نعروں کے جواب میں کہا’’اور زور سے سہروردی مردہ باد کہو کہ اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ برطانیہ سے کوئی تعلق نہیں رکھے گا اور دولتِ مشترکہ سے بھی نکل جائے گا۔۔۔

برطانیہ نے اسرائیل کو مصر پر حملہ کرنے کی شہ دے کر دنیائے اسلام کو للکارا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ تمام مسلمان ملک مل کر برطانیہ اور فرانس کےجارحانہ اور اسلام دشمن عزائم خاک میں ملا دیں‘‘ اس کے بعد مشتعل ہجوم نے حسین شہید سہروردی زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کئے۔ اب تو دنیا کے کئی ملک کرنسی نوٹوں پر چار چار صفر ہٹا دیتے ہیں جیسے ایران نے کیا اس سے پہلے ترکیہ نے کیا اور اطالیہ نے بھی مگر وہاں کے لوگ عام طور پر سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ اس سے معاشی صورت حال کو سنبھالا ملے گا۔اس میں شک نہیں لوگوں نے اسے مان لیا ہے کہ ترقی یافتہ ہی نہیں ترقی پذیر ملک بھی کہتے ہیں کہ ہمیں ایسی معاشی پالیسیاں بنانی چاہئیں کہ بے روزگاری کم ہو،ملک میں مرد کے ساتھ عورت بھی دفتروں میں کام کرے،ہنرمندی پھیلے اورامید افزا ماحول پیدا ہو کہ مائیں اپنا زیور بیچ کر اپنے بچوں کو لالچی اور دھوکہ باز انسانی سمگلروں کے ذریعے ان کی اندھی لانچوں کے سپرد نہ کریں کہ پھر ساری عمر ان کے لئے بین کرتی رہیں۔

یہی وجہ ہے بیس تیس برس ہم نے ’’ پائیدار ترقی‘‘ کا نعرہ سنا ۔ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں معاشیات کا علم دینے والوں کی کمی ہے مگر آپ ان کی گفتگو سنیں تو وہ اپنے آپ کو بھی سمجھانے سے قاصر ہیں ۔اب منو بھائی جیسے کالم نگار کہاں سے آئیں کہ انہوں نے سرمایہ داروں کی ایک تھیوری’’ ٹرکل ڈائون‘‘ یا ریزش زر ایک کالم میں سمجھا دی تھی کہ یہ کہتے ہیں کہ امیروں کو اور امیر کرو ان کی جب دونوں جیبیں بھر جائیں گی اور معدے بھی تو ان کی جیبوں سے کھن کھن یا چھن چھن کرنسی گرے گی اور اسے غریبوں کے بچے اٹھا لیں گے۔

اب ہمیں کون سمجھائے گا کہ اس مرتبہ اقتصادیات کا نوبل انعام تین ماہرین (جوئیل موکیر،پیٹر ہوئٹ اور فلپی اگیون) کو کیوں دیا گیا ہے ؟ ان تینوں کی پیدائش امریکہ سے باہر ہوئی مگر انہوں نے پی ایچ ڈی امریکی یونیورسٹیوں سے کیا۔جو بات ہم جیسے عام لوگوں کوسمجھ آ رہی ہے کہ ’’پائیدار ترقی‘‘ کے مفہوم کو وسعت دی گئی ہے یا لچک دار بنایا گیا ہے اور شاید کہا گیا ہے کہ ایک ٹیکنالوجی میں پیش رفت نے دوسری ٹیکنالوجی کے لئے گنجائش پیدا کی اب ایک نسل جسے پیش رفت یا ترقی سمجھتی تھی دوسری نسل کے لئے وہ متروک ہو گئی یعنی صنعتی انقلاب کے بعد یہ تاثر عام ہوا کہ اب مزید گنجائش کہاں سے آئے گی مگر ٹیکنالوجی نے نئی گاڑیاں بنائیں انہیں بہتر کیا اور بہتر کیا جا رہا ہے اور یوں ترقی کیلئے بھی نئے امکانات اور راستے پیدا ہو رہے ہیں۔ دنیا کی ترقی سے جلنے کڑھنے یا ان کے عیب گنوانے کی بجائے ہم اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو آمادہ کریں کہ وہ اسے ایک ملک کا اعزاز خیال نہ کریںاسے عالمی ورثہ سمجھ کر اپنے اسکول،کالج یا یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ بنائیں…بے شک ہماری یونیورسٹیوں کے حالات قابل رشک نہیں ۔

ہر روز یا ہر شام سراسیمہ کرنے والی خبریں سامنے آتی ہیں،ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا انتخاب ہورہا تھا تو سرچ کمیٹی کے چیئرمین نے دس نمبر کا تحریری ٹیسٹ رکھ دیا جس پر خود کو امرت دھارا سمجھنے والے امیدوار اس میں فیل ہو گئے تو وہ عدالت میں چلے گئے کہ ایسا ٹیسٹ لینے والوں کی نیت ہی درست نہیں۔ یہ بات سن کر ایک شاعر نجم الاصغر شاہیا کی روح نے سرگوشی کی

زندگی لیتی ہے گاہے گاہے میرا امتحاں

امتحاں میں بڑھ جائے پریشانی مری

زندگی بے رحم استانی مری

یہاں مجھے محمد خالد اختر کا ایک مضمون ’’دہقانی یونیورسٹی‘‘ یاد آرہا ہے اجازت دیں تو ایک اقتباس درج کر دوں ’’ جب میرے انٹلیکچوئل دوست کافی کے پیالے پر اقتصادیات اور اونچی سیاسیات پر عالمانہ بحثیں کرتے ہیں تو میں سوچنے لگتا ہوں کیا اقتصادیات کی تھیوریاں واقعی انسان کو دائمی خوشی اور سکون دے سکیں گی؟

آدمی نے سائنس میں،ادب میں آرٹ میں اتنی ترقی کی ہے کیا بیسویں صدی کامہذب آدمی،پتھر اور دھات کے زمانے کے اپنے مورث سے زیادہ خوش اور مطمئن ہے؟ مجھ سے پوچھیں تو ادب،ادب ہےخواہ وہ انگریزی ادب ہو عبرانی یا فارسی ادب۔ اس کا شوق اور مطالعہ ہمیشہ صحیح انسانیت پیدا کرتا ہے ‘‘۔

تازہ ترین