جاپان کے شہر اواکی میں ساحل سمندر کے کنارے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ امن کے پیام بر ملک جاپان میں قدرتی آفات آئیں تو آئیں انسانوں نے آپس کی دشمنیوں، ملکوں کی جنگوں کو خیرباد کہہ دیا ہے مگر ہمارے دیس میں اب بھی دشمنیوں، آپس کی لڑائیوں اور جنگوں سے خون بہایا جا رہا ہے۔ افغان طالبان نے احسان کے بدلے میں شر کا جو رویہ اپنایا ہے اس سے مسلسل انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ حال ہی میں لاہور میں جو خون بہاہے اس نے معاشرے کو دہشت زدہ اور حیرت زدہ کر رکھا ہے۔ لاہور میں ہونے والے واقعات، چاہے وہ نوجوان احمد جاوید کا ناحق قتل ہو ، طیفی بٹ کا پولیس مقابلہ یا پھر تحریک لبیک کا خونیں مارچ، مجھے ماضی کا لندن یاد آتا ہے۔ماضی میں لندن میں ہر طرف خون کی بو پھیلی ہوتی تھی، جیسے آج کا لاہور ہے یا ہمارا پورا خطہ ہے کبھی لندن بھی ایسا ہوتا تھا۔ لندن کے ہر گلی محلے میں لڑائیاں ہوتی تھیں لوگ باگ لڑائیاں دیکھنے کے شوقین تھے چاقو، چھریاں اور ڈنڈے عام استعمال میں تھے ،ہر گلی محلّے کے اپنے اپنے بدمعاش تھے ،آئے روز ایک دوسرے کا خون بہایا جاتا تھا لوگ جرائم کو کارنامہ تصور کرتے تھے ۔ حد یہ تھی کہ تھیٹر میں ڈرامہ بھی وہ کامیاب ہوتا تھا جس میں خون بہنے کا منظر دکھایا جاتا۔گینگ وارز عام تھیں، اُجرت پر قتل کا رواج تھا، غنڈہ راج تھا۔ لندن مگرتبدیل ہوا ،آج کے لندن میں چاقو رکھنا اتنا بڑا جرم ہے کہ فوراً پولیس گرفتار کر لیتی ہے، اسلحہ رکھنا تو خیر تقریباً ناممکن ہے صرف دہشت گرد یا تخریب کار ہی اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں وہاں مہینوں تک کسی انسان کے قتل ہونے کی خبر نہیں آتی برطانیہ میں کوئی ٹرین کے نیچے آجائے تو وہ شہ سرخی ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں یہ خبر اندرونی صفحات میں ایک کالم میں شائع ہوتی ہے۔جاپان نے ایٹم بم کی تباہ کاری دیکھی، سونامی اور نیوکلیئر پلانٹ کا پھٹنا برداشت کیا، زلزلے اور طوفان دیکھے۔ جنگوں میں حصّہ لیا مگر آج کا جاپان دنیا بھر میں جنگوں اور ایٹمی ہتھیاروں کا سخت مخالف ہے جاپان میں کبھی ظلم و تشدد تھا مگر گزشتہ 75 سال میں جاپان نے اپنے اندر کی ہمدرد انسانیت کو اجاگر کیا ، جیو اور جینے دو کے اسی فلسفے کو برطانیہ نے اپنایا تو آج وہاں انسانی جان کی قدر ہے اسی سوچ کو جاپان نے اپنایا تو آج یہاں انسان تو کیا جانور بھی امن اور آسائش میں ہیں ۔ پاکستان اور لاہور میں بھی یہی چلن ہوگا تو امن ہو گا۔لاہور میں قتل ہونے والا نوجوان احمد جاوید میرا محلّے دار تھا خوبصورت نوجوان کے والد عادل رشید سے میرا دیرینہ تعلق ہے اور ان کے گھر آنا جانا لگا رہتا ہے عادل رشید اچھرہ کے متمول آرائیں گھرانے کے فرزند ہیں ان کے دادا میاں رشید کا مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد سے ذاتی تعلق تھا، مولانا مودودی زیادہ ترنمازِ جمعہ میاں رشید کی مسجد میں ہی ادا کیا کرتے،جسکے بعد تھوڑی دیر میاں رشید سے گفتگو کرتے پھر میاںرشیدکے صاحبزادے اور عادل رشید کے والد سے گپ شپ لگایا کرتے،وہ مولانا مودودی سے فرینک تھے اور مولانا کی خوش طبعی سے فائدہ اٹھا کر انہیں لطائف بھی سنا دیا کرتے تھے ،میاں رشید اور جماعت اسلامی کے دوسرے امیر میاں طفیل محمد آپس میں بھائی بنے ہوئے تھے میاں طفیل محمد نے مجھے اپنے جیو پروگرام کے دوران نہ صرف میاں رشید سے انکے گھر جاکر ملوایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ میاں رشید ہر مشکل وقت میں انکی مدد کرتے رہے ہیں اور کئی دفعہ انہیں اُدھار دیتے رہے ہیں گویا ناحق مرنیوالا نوجوان اپنے خاندان کا اکلوتا فرزند ہی نہیں ایک تاریخی ورثے اور سیاسی روایت کا امین بھی تھا۔ عادل رشید سے تعزیت کیلئے حاضر ہوا تو انکا اس دُکھ پرصبر دیکھ کر آبدیدہ ہو گیا۔ وارثین کو خدشہ ہے کہ قاتل بااثر ہیں حکومت میں ان کا رسوخ ہے ایسا نہ ہو کہ طاقتور بچا لئے جائیں اور بیگناہ و کمزور پکڑے جائیں، معاشرے میں انتقام تب پیدا ہوتا ہے جب انصاف نہ ہو ۔ خون روکنا ہے تو انصاف کو موثر اور شفاف بنانا ہوگا کوئی طاقت ور ہو یا کمزور، جرم کرے تو اسے سزا ملنی چاہئے۔
لاہور گوالمنڈی کے کشمیری خاندان کے چشم و چراغ تعریف گلشن بٹ عرف طیفی بٹ سےمیری دو طویل ملاقاتیں ہوئیں ،صحافیانہ تجسس یہ تھا کہ جس شخص کا نام پورے لاہور میں گونجتا ہے اسے مل کر دیکھا جائے کہ وہ کیسا ہے۔ طیفی بٹ کبھی کبھار ہی گھر سے نکلتا تھا مگر اس کا خوف ،رعب اور دبدبہ اتنا تھا کہ وہ جس کو پیغام بھیجتا تھا اسے انکار کی جرأت نہیں تھی، سیاسی اجتماع کرنا ہوتا تو طیفی کی ایک ٹیلیفون کال پر سینکڑوں تاجر جمع ہو جاتے ،جامعہ اشرفیہ کے بانی خاندان کے حافظ خالد میرے پرانے دوست ہیں انہی کی وساطت سے یہ دونوں ملاقاتیں طیفی بٹ کے گھر پر ہوئیں ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ طیفی بٹ کے بڑے بھائی خواجہ اظہر گلشن سے برسوں پرانی شناسائی تھی وہ تاجروں کے لیڈر تھے اکثرہماری ملاقات نوابزادہ نصر اللہ خان کے ڈیرے پر ہوتی تھی، خواجہ اظہر کے والد غلام حسن گلشن بھی اپوزیشن کی سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے خواجہ اظہر بھی اسی روایت کے آدمی ہیں جب پنجاب اور لاہور میں نواز شریف کا طوطی بولتا تھا اور بالخصوص تاجروں میں کوئی انکی مخالفت میں کھڑا نہ ہوتا تھا خواجہ اظہر اس وقت بھی بہادری سے حکومت مخالف تاجر سیاست کرتے تھے طیفی بٹ البتہ اپنے بھائی کی سیاست سے اتفاق نہیں رکھتے تھے وہ نونی سیاست کے حامی تھے اور وقتی طور پر جنرل مشرف کے حامی بھی رہے تاہم انکے شریف خاندان سے پرانے روابط تھے اور وہ ان کیخلاف نہیں تھے۔ دو ملاقاتوں کا احوال کچھ یوں تھا کہ ہم دو دوست طیفی بٹ کے گھر پہنچے تو محافظوں پر سب سے پہلے نظر پڑی جن سے گزر کر ہم اندر آئے چھت اور سائیڈ کے کمروں میں بھی محافظ تھے اندر گئے تو طیفی بٹ اکیلے کمرے میں بیٹھے تھے ان کے پاس ہی ایک لوڈ ڈ پستول پڑا تھا، حال احوال کے بعد تجسس نے انگڑائی لی اور میں نے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ قبضے کرتے ہیں آپ کا بزنس کیا ہے؟ طیفی بٹ میرے سوال پر بالکل حیران ہوئے اور نہ ہی خفا، جواب میں کہا ’’میرا بزنس ہے کہ جس بلڈنگ یا زمین میں دو بھائیوں میں جھگڑا ہو جائے اور طاقتور بھائی کمزور کو حصّہ نہ دے تو میں کمزور سے اس کا حصہ خرید لیتا ہوں اور پھر طاقتور کو سمجھاتا ہوں کہ وہ بھی پراپرٹی مجھے بیچ دے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو دُکھ کس بات کا ہے؟ مرحوم طیفی بٹ نے کہا کہ دشمنی نے مجھے اپنے بیٹے پڑھانے کا موقع نہیں دیا، مجھے افسوس ہے کہ میرے بیٹے پڑھ نہیں سکے‘‘۔ایک شادی میں اتفاقاً میری امیر بالاج سے بھی عین اسی روز دوپہر میں ملاقات ہوئی جس روز وہ قتل ہو گیا امیر بالاج نے مجھے دیکھا آگے بڑھ کر گلے ملا،طے ہوا کہ ہم جلد ہی تفصیلی ملاقات کرینگے مگر افسوس کہ وہ اسی رات یہ جہان چھوڑ گیا۔
جاپان میں بیٹھا میں سمندر کی لہروں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ یہ چند دنوں کی زندگی ہے وقت اتنا کم ہے کہ محبتیں پھیلانے کیلئےبھی وقت نہیں مگر ہم نے اس وقت کا بہترین استعمال کرنے کی بجائے نفرتیں اور دشمنیاں پال رکھی ہیں۔ گھر گھر، شہر شہر ،ملک ملک خون بہہ رہا ہے کاش ہم بھی جدید دنیا کی طرح تشدد، تخریب اور خون بہانے سے باز آکر امن، تعمیر اور زندگی کی طرف آجائیں مقابلہ ہتھیاروں کا نہیں عقل اور علم کا ہو، مقابلہ دولت اور طاقت کا نہیںقابلیت اور اہلیت کا ہو۔ معاشرے کو پر امن کرنا ہے تو ہتھیاروں پر مکمل پابندی عائد کریں اور اگر جرم ہو تو انصاف کا شفاف نظام بنانا ضروری ہے پولیس مقابلے وقتی اور ناپسندیدہ حل ہیں منصفانہ حل تفتیش اور انصاف کے نظام کو بااختیار کرنا ہے ریاست کو اس مد میں جتنا بھی خرچ کرنا پڑےخرچ کرنا چاہئے کیونکہ امن اور خوشحالی کا دیرپا راستہ یہی ہے۔