• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عبدالباری خان ڈاکٹر ادیب رضوی سے جوش عقیدت میں لپٹ رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر یہ تصویر گردش میں ہے پاکستان کے دونوں فرزندوں کی آنکھوں میں جو والہانہ تسکین ہے ۔وہ ان کی زندگی بھر کے خوابوں کی تعبیر ہےصرف ان دونوں عظیم ہستیوں کی نہیں پاکستان کی عطیاتی روح کی بھی جھلک ہے مصائب مسائل اور خراب حکمرانی میں گھرے پاکستانی اندرون ملک اور بیرون ملک تعلیم اور صحت کے شعبوں میں جس طرح اربوں روپے رضاکارانہ عطیہ کرتے ہیں ۔وہ پاکستانیوں کی اپنے ہم وطنوں کی خیر خواہی کی ایک تابندہ مثال ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک سہ پہر پاکستان آئی بینک سوسائٹی ہسپتال کے کھچا کھچ بھرے آڈیٹوریم میں اپنے ہم وطن صنعت کاروں تاجروں کیساتھ ساتھ ہم ہائیڈل برگ جرمنی کے روٹری کلب کےعطیات سے غریب گھرانوں کے بیس ہزار پرائمری طالب علموں کی آنکھوں کے معائنے کی تفصیلات سے بھی خوشی حاصل کر رہے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہر شہری کی جان مال کی حفاظت، تعلیم اور صحت کے حصول کی ہے۔ جب یہ پوری نہ ہو رہی ہو تو مشتاق چھاپرا ،قاضی ساجد علی جیسے درد مند میدان میں اترتے ہیں پاکستان آئی بینک سوسائٹی 1970ءسے ہم وطنوں کی بصارت کیلئے سرگرم ہے۔ قاضی ساجد علی نے جرمنی سے اپنے کاروباری رشتوں کو پاکستان کے پسماندہ طبقوں کی بہبودکیلئے بروئے کار لانا شروع کیا ۔ہائیڈل برگ جہاں علامہ اقبال دریائے نیکر کے کنارے عظیم شاعری تخلیق کرتے رہے ۔وہاں کے روٹری کلب کے عہدے دار پاکستان کے پسماندہ طبقوں کے اسکولوں میں آئی کلینک کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

60 ہزار بچوں کی بصارت کی ذمہ داری لے رہے ہیں صرف معائنہ نہیں بہترعلاج بھی ہدف ہے۔ٹیسٹ رپورٹس تسلی بخش نہیں ہیں مگر والدین کو اطمینان دلایا گیا ہے۔ تقریب میں جرمنی کی یہ انتہائی مصروف شخصیات کئی گھنٹے ہمارے ساتھ آن لائن رہیں 60 ہزار میں سے 20 ہزار بچوں کا ہدف بہت جلد حاصل کر لیا گیا ہے۔ شاعری نے کیسے دو ملکوں کے رشتوں کو پختگی دی ہے۔ آئندہ نسلوں کی تربیت ہو رہی ہے۔ اقبال کے شعر کو تفسیر مل رہی ہے ۔

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی مہمان خاص ہیں ان کے ذریعے رضاکارانہ قومی خدمت کا یہ جذبہ اسلام آباد تک پہنچے گا ۔

آج اتوار ہے ۔اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں ،بہوئوں دامادوں کے ساتھ تبادلہ خیال کا دن۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئےاستعمال،دنیا میں پھیلتی مایوسیوں، دانشمندانہ قیادت سے عالمی محرومی میں والدین اور اولاد کے درمیان یہ ہفتہ وار رابطہ دنیا کو بہت سی ناگہانی آفتوں سے بچا سکتا ہے۔ہمیں پاکستان کی سنچری کیلئے بھی تیاریاں کرنا ہیں ۔

میں کئی روز سے بہت مضطرب ہوں ۔اعداد و شمار دیکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے تو پاکستان کی موجودہ وحدت کو ہر قسم کے قدرتی معدنی وسائل اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل عطا کیے ہیں۔ قائد اعظم 1948 ءمیں ان بے پایاں نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہے۔ 78سال سے ہم ان کو پوری طرح بروئے کار نہیں لا سکے ۔صد شکر کہ عالمی ادارے پاکستان کو عسکری طاقت میں عالمی سطح پر اب دسواں نمبر دے رہے ہیں۔ ہم سے پہلے1. امریکہ2. روس 3.چین 4.بھارت 5.جاپان6. جنوبی کوریا 7.فرانس 8. برطانیہ9. برازیل علی الترتیب ہیں۔یہ فوقیت ایسے ہی نہیں باقاعدہ اتحاد،ایمان،ڈسپلن اور اہل وطن کی قربانیوں سے حاصل ہوئی ہے۔ یہ اعزاز بھی ہے کہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی طاقت ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت بھی۔

ہمارے قادر و عادل نے ہمیں قدرتی معدنی وسائل بھی فراوانی سے عنایت کیے ہیں۔ تانبے میں پانچویں حیثیت، بیرائٹ میں چوتھی ،کرومائٹ میں تیسری، کوئلے میں سولہویں ،آئرن میں تیسری ،نمک میں قدیم صدیوں سے پہلی اور قیمتی پتھروں میں بھی اولیت حاصل ہے۔ زراعت میں ماشاءاللہ آٹھویں اور بھی بہت کچھ ہے ۔دریائی پانی، قدرتی ساحل مگر اسکے باوجود ہم غریب ہیں۔ مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔ تعلیم میں ہمارا نمبر 138 واں، صحت میں 124واں ،پاسپورٹ کی عزت میں 96،آمدنی کے لحاظ سے 46 ،خوشی میں 109 ،زندگی کی عمدگی میں 147واں ۔

ایسا کیوں ہے جب ہم دفاع میں اولین حیثیتوں میں ہیں ایٹمی طاقت بھی ہیں تو دوسرے شعبوں میں ہماری حیثیت بہتر کیوں نہیں ہے ۔قدرتی وسائل اور انسانی وسائل بے کراں۔ پنجاب ، سندھ، کے پی ، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں کشمیر کے انسانی وسائل ہزاروں سال سے بہت جفا کش محنتی اور ایجاد طبع ہیں۔ صوفیائے کرام کی شاعری، ادب و ثقافت، تہذیب کے سرچشمےزرخیز اراضی ہے۔کسان کام چور نہیں ۔جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کی فہم میں بھی ہم 69نمبر پر ہیں۔آئی ٹی میں بھی بہت آگے ہیں ۔پھر بھی ہم مقروض ہیں۔ قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے بجائے ہمارا ہر وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ اس وقت ہم پر 273 ارب ڈالر یا 76 ہزار 45کھرب روپے قرضہ ہے۔ ہمیں اس کی ادائیگی کیلئے رات دن محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہماری 47 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ پی پی پی کا دور ہو یاپی ایم ایل نون کا ، پی ٹی آئی ہویا فوجی حکمرانی، ہر دور میں غربت کی لکیر سے نیچے ہی لوگ گئے ہیں۔ 2023ء اور 2024ء میں ایک کروڑ 30 لاکھ مزید پاکستانی اس ظالم لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔

پاکستان میں ہر ضلع میں یونیورسٹیاں قائم ہو گئی ہیں۔ گلی گلی کالج اسکول ہیں۔ اسکول مالکان اتنا کما چکے ہیں کہ اب یہی سرمایہ اونچے ہوٹلوں میں لگا رہے ہیں مگر ہم تعلیم میںپھر بھی بہت پیچھے ہیں ۔اسی طرح ہسپتال مالکان کی دولت کا بھی شمار نہیں ہے مگر صحت میں پاکستانی بہت مشکلات سے دوچارہیں۔

عالمی بینک ،اقوام متحدہ ،یونیسکو یونیسف اور دوسرے ادارے ہمیں بار بار اپنی ترجیحات ضرورت کے مطابق متعین کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ آبادی کا دباؤ کم کریں۔ ریاست تعلیم صحت میں زیادہ سرمایہ لگائے۔ عام طور پر ان کی ترتیب یہ ہے 1.تعلیم2. صحت 3روزگار4. قانون کی حکمرانی 5.پائیدار معیشت 6. مضبوط انفراسٹرکچر7. غربت میں کمی 8.صنعت میں سرمایہ کاری 9.ماحولیات کی بہتری10. کرپشن کا خاتمہ.11. سماجی برابری12. ہر شہری کی سوشل سیکورٹی۔وسائل بھی ہمارے پاس ہیں مسائل کی تشخیص ہو چکی۔ ترجیحات بھی مل چکیں۔ضرورت یہ ہے کہ حکمران صرف اپنے آپ کو عقل کل نہ سمجھیں واہگہ سے گوادر تک اجتماعی ذہانت سے مشاورت کا سسٹم بنایا جائے۔ یونیورسٹیاں تحقیق کریں۔ قومی سیاسی جماعتیں اپنے ریسرچ ونگ قائم کریں۔ اس طرح ایک اجتماعی قیادت کا نظام وجود میں لایا جائے۔یہ کرے گا کون؟ کس کی ذمہ داری ہے؟ اب تک اگر نہیں ہو سکا تو کون جواب دہ ہے ؟مجھے تو ذمہ داری کا تعین کرتے ہوئے خوف آتا ہے ۔ آپ بتائیں کہ کیا کیا جائے؟؟؟

تازہ ترین