• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں جو مرضی دعوے کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ برسر اقتدار نون لیگ، اتحادی پیپلزپارٹی اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف سب کا تنظیمی حال پتلا ہے۔ نہ حکومتی جماعتوں کی پنجاب میں کوئی موثر تنظیم ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی گراس روٹ سیٹ اپ۔ پچھلے الیکشن سے لیکر اب تک سیاسی احوال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹ موجود ہے لیکن کوئی موثر ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے انکی اسٹریٹ پاور ختم ہوچکی ہے۔ نون کو ماضی کے کئی برسوں میں جو جھٹکے لگے اس سے اس کی تنظیم اور مقامی گروپ بندیاں ٹوٹ چکی تھیں اور اب نون کی تنظیم بھی نام نہاد ہے، زمینی حقائق سے یہ کٹ چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کی تنظیم بھی کاغذوں اور ناموں تک محدود ہے نہ وہ ووٹ بینک کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی ضرورت پڑنے پر سڑکوں کو گرم کرسکتی ہے۔ ماضی میں یہ تینوں جماعتیں مختلف وقتوں میں موثر تنظیم رکھتی تھیں اور اپنی جماعتی تنظیموں کے ذریعے الیکشن بھی جیتتی رہیں لیکن سچ یہ ہے کہ آج کے دن تینوں جماعتیں صرف اخبارات ،ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے زندہ ہیں ۔لیڈر شپ اور ووٹر شپ کا آپس میں براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی سیٹ اپ ہے جو ان کے براہ راست تعلق کو استوار کرسکے۔

اپوزیشن چونکہ مشکل میں ہے اس لئے اس کی توجہ تنظیم پر مرکوز کرنا ممکن نہیں انکی لازمی ترجیح اس وقت بچاؤ(Survival) ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی علم ہے کہ پنجاب میں زمین اس کے نیچے سے کھسک چکی ہے مگر اسے کوئی ایسا فارمولا، کوئی ایسا لیڈر یا ایسا بیانیہ نہیں مل رہا جس سے وہ دوبارہ پنجاب میں قدم جما سکے۔ نون لیگ انتخابات اور تنظیم کے حوالے سے پنجاب میں سب سے تجربہ کار سمجھی جاتی ہے نون کی اندرونی میٹنگز میں اپنی کمزور تنظیم، ووٹ بینک کی کمی اور بیانیے پر صلاح مشورے ہوتے رہتے ہیں، نون لیگ نے کافی گومگو کے بعد مقتدرہ کے اس بیانیے کو مکمل طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ تحریک انصاف کی سیاست ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ اس سیاست کے پس ِپردہ غیر ملکی منصوبہ ہے جس میں فوج کو کمزور کرکے توڑنا شامل ہے۔ سنا ہے کہ شروع میں کئی نونیوں کواس بیانیےکوتسلیم کرنے میں تامل تھا اور وہ اپنی پس پردہ میٹنگز میں کہتے تھے کہ تحریک انصاف کو دیوار کے ساتھ نہ لگایا جائےلیکن وقت کی مجبوریوں اور تحریک انصاف کے ساتھ کسی مصالحت کے نہ ہونے نے اب نونیوں کو فوج کے ساتھ اس مسئلے پر ہم آہنگ کردیا ہے اور وہ بھی قائل ہوگئےہیں کہ تحریک انصاف9مئی کو ججوں اور چند جرنیلوں کے ساتھ مل کر انقلاب لانے کی تیاری میں تھی بلکہ اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران بھی تحریک انصاف کا منصوبہ تھا کہ اڈیالہ جیل توڑ کر پہلے عمران خان کو رہا کروایا جائے گا اور پھر جی ایچ کیو پر حملہ کیا جائے گا۔ اس بیانیے کو اپنانے کے بعد نونی منصوبہ بندی میں یہ واضح ہے کہ مستقبل قریب میں تحریک انصاف سے کسی قسم کی مفاہمت اور عمران خان کی رہائی کا دور دور کوئی امکان نہیں ۔ اب نون کو علم ہوگیا ہے کہ پنجاب کا میدان انکی سیاست کیلئے کھلا ہے تحریک انصاف کیلئے کوئی معافی نہیں اسی لئے نون پیپلزپارٹی کو اس صوبے میں کوئی جگہ دینے پر تیار نہیں مگر نون کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ دوبارہ سے نون لیگ میں ہوا کیسے بھری جائے، پارٹی کی تنظیم کیسے کھڑی کی جائے اور اپنا ووٹ بینک کیسے تخلیق کیا جائے۔

نونی بڑوں کے کئی اجلاس اور صلاح مشورے ہوچکے ہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نون اب سیاسی بساط پر مہرے چلانے لگی ہے۔ طے یہ ہوا ہے کہ صوبے میں مرحلہ وار بلدیاتی/مقامی حکومتوں کے انتخابات کروائے جائیں۔ اور پھر جنرل ضیاء ،جنرل ایوب اور جنرل مشرف کے بلدیاتی اداروں کی طرح سے ایک نیا سیاسی ڈھانچہ کھڑا کیا جائے ایک لاکھ سے زیادہ منتخب بلدیاتی سربراہ نون کی نئی سیاسی نرسری بن جائیں گے۔ انتخابات کروانے یا نہ کروانے پر بھی نونی بڑوں کی رائے بٹی ہوئی تھی ایک رائے تھی کہ پانچ سال ڈٹ کر ترقیاتی کام کروائے جائیں اور کسی بھی الیکشن کا رسک نہ لیا جائے دوسری رائے یہ تھی کہ ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ تبھی ملے گا جب مقامی حکومتوں میں نونی نمائندے ہونگے۔ ایسا لگتا ہے اب یہ طے ہوگیا ہے کہ الیکشن کی طرف ضرور بڑھا جائے مگر احتیاط سے۔

ان مشاورتی ملاقاتوں میں یہ سوال بھی اٹھا کہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہونگے تو سیاست بھی زندہ ہوگی اور جب سیاست زندہ ہوگی تو تحریک انصاف کی تنظیم کے تنِ مردہ میں بھی جان پڑ جائیگی ایسا نہ ہو کہ بلدیاتی انتخابات ایک نئے سیاسی ہنگامے کو جنم دیں۔ اس پر بھارت کی طرح مرحلہ وار انتخابات کا فیصلہ کیا گیا ہے پہلے سب سے زیادہ غیر سیاسی اور محفوظ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ نونی، انصافی اور پپلیے امیدواروں کا براہ راست مقابلہ کروانے اور ایک سیاسی دنگل سے بچنے کیلئے اجتماعی کامیابی کا فارمولا اپنایا گیا ہے یعنی ہر یونین کونسل میں 9 ممبران منتخب ہونگے اور وہ پھر اپنا چیئرمین منتخب کرینگے۔ فی الحال ان بلدیاتی قوانین کی نوک پلک سنواری جارہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ نون خالی میدان دیکھ کر اس میں کودنے اور پھرپہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر خود ہی آنے والی ہے۔ نون کی ابتدا بھی1979ء، 1983ءکے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات اور پھر1985ء کے غیر جماعتی قومی انتخابات سے ہوئی تھی۔

توقع یہ کی جارہی ہے کہ نومبر کے بعد سے ملک میں واضح سیاسی سمت نظر آنا شروع ہوجائے گی یہ تو طے ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں تحریک انصاف کیلئے کوئی جگہ نہیں یہ بھی تقریباً طے ہے کہ حکومت کو اتحادی جماعتوں کیساتھ چلایا جائیگا یہ بھی واضح نظر آرہا ہے کہ معیشت کو بہتر بنانے پر فوکس بڑھے گا ان طے شدہ امور کے علاوہ بہت سے ایسے امور ہیں جو ابھی طے نہیں ہیں اور ان پر ابھی اندرونی اختلافات ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ اگلے وزیر اعظم کیلئے مریم نواز کا نام فائنل کرسکا ہے یا نہیں،بلاول بھٹو بھی اسی عہدے کے امیدوار ہیں اور حکومت کے اندر بیٹھے کئی چہرے بھی اسکے خواہش مند ہیں۔ بہرحال یہ طے ہونا باقی ہےکہ سیٹ اپ آئندہ کیلئے کس کی فال نکالے گا؟ دوسرا اہم معاملہ عمران خان کی زندگی اور سیاسی مستقبل کا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کبھی نہ کبھی کرنا ہوگا کہ کیا عمران خان کو اسی طرح جیل میں رکھ کر عدم استحکام کا رسک ہمیشہ برقرار رکھنا ہے یا اس معاملے کے حل کیلئے کوئی راستہ موجود ہے؟ پیپلز پارٹی مخلوط حکومت کی اتحادی ضرور ہے مگر اس نے کوئی وزارت نہیں لی یہ غیر اطمینان بخش انتظام ہے اس میں آئے روز تناؤ کا اندیشہ رہتا ہے ،طے کرنا ہوگا کہ یہ معاملہ اسی طرح نشیب وفراز کا شکار رہے گا یا اسکا بھی کوئی حل ہے؟ سیاست اور آزادی اظہار کے حوالے سے بھی کچھ فیصلے کرنا ہونگے کہ کیا محدود سیاست اور آزادیوں سے ملک کا جمہوری تاثر برقرار رہ سکے گا اور کیا اسطرح کے انتظامی اور عدالتی ڈھانچے کی موجودگی میں کوئی بیرونی سرمایہ کاریا کوئی دوست ملک،پاکستان میں سرمایہ لگانا محفوظ تصور کرے گا یا نہیں؟

نومبر گزرا توان بنیادی اور اہم سوالات پر غور کے بعد ان کے ممکنہ جوابات ڈھونڈنا ہونگے۔ یہ ہوگا تو سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی کامیاب ہوگی۔

تازہ ترین