مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ کی نسل کشی کے بعد امن معاہدے اور جنگ بندی کی بات چیت جاری تھی۔بیس سے زیادہ ملکوں کے سربراہان موجود تھے۔ موقع محل کے برعکس خوش گپیاں کررہے تھے جیسے کسی تفریحی موقع پر آئے ہوں۔ وہ لمحہ بہت حساس تھا، کیونکہ غزہ جس پر دو سال تک بمباری ہوئی، جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہزاروں بچوں کو روندا گیا پھر بھوک سے مارا گیا اس خطے میں بھوک موت اور تباہی موجود ہے اور شاید اگلے کئی سال تک موجود رہے لیکن یہ عالمی رہنما جس انداز میں بات چیت کر رہے تھے، وہ بہت غیر سنجیدہ لگا۔خاص طور پر امریکی صدر جو گفتگو کے دوران اٹلی کی وزیرِاعظم کی خوبصورتی کی تعریف کرنا نہیں بھولے، یہ سب کچھ بہت سطحی سا لگا۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ جن کے ہاتھوں میں دنیا کا اختیار ہے، وہ اتنے غیر سنجیدہ ہیں۔ کیا اب واقعی یہی لوگ اس دنیا کو چلائیں گے؟
اس پر ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کا ٹرمپ کو بار بار امن کا علمبردار قرار دینا ، امن کے نوبل پرائز کیلئے نامزدگی کا ذکر کرنا اور پھرانہیں سیلوٹ کرناحد نہیں ہوگئی۔ ڈپلومیسی کی مجبوریاں اپنی جگہ ہوتی ہیں یہی بات کچھ اس سلیقے سے کہی جاتی اپنی عزت نفس کا بھی بھرم رہتا۔ کون نہیں جانتا کہ غزہ پر دو سال بارود باری اور فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے اسرائیلی جنگی جرائم کی پشت پناہی امریکہ نے کی۔ حالیہ جنگ میں امریکہ نے سلامتی کونسل میں ہر بار غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کیا۔یقیناً ہمارے وزیراعظم یہ سب جانتے ہوں گے لیکن انہوں نے اس بات پر عمل کیا کہ’’ سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں .... دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ ‘‘۔
ان کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ کھڑے تھے جو اپنے مزاج کی ایک وکھری ٹائپ کے انسان ہیں،متلون مزاج بڑ بولے شاطر اور بظاہر من موجی جو جی میں آئے بول دیں اور اسی بولتی کو بند کرنے کیلئے شہباز شریف نے انکے سامنے ان کے ان کارناموں کو بیان کیا جس پر وہ خود بھی حیران تھے، یہ ہوا اور آس پاس کے سننے والے بھی حیران تھے۔عالمی میڈیا نے بھی اس پردلچسپ تبصرے کیے۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم نے امریکی صدر کوا سپیل باؤنڈ کر دیا۔یہ وہ امریکی صدر ہیں جنہیں بولنے کا بہت شوق ہے نوجوانی میں ان کے کچھ بیہوریل ایشوز بھی رہے ہیں جس میں ایک ایشو ان کا یہی بڑ بولا پن تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت میں شروع سے ہی کچھ رویوں اور برتاؤ کے مسائل تھے جنہیں نفسیات کی سائنس میںبیہوریل ایشو کہا جاتا ہے ان ایشوز کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے والد نے 13سالہ ڈونلڈ کو نیویارک کے ایک ملٹری اسکول میں داخل کروا دیا تھا تاکہ کچھ ڈسپلن سیکھ سکیں اور ان کی غیر متوازن شخصیت میں بہتری آئے ۔یہاں کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ٹین ایجر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہاں پر بھی اپنے ساتھیوں کو اپنے رویوں سے ہراساں کیااورانہیں ملٹری اسکول کے رولز کے مطابق سزائیں ہوئیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو خواہ مخواہ بولنے کا شوق ہے جسکی وجہ سے وہ کئی بار اپنےا سکول کے زمانے میں مشکل میں پڑے لیکن اب مشکل یہ ہے کہ وہ امریکہ کے صدر ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
عالمی منظر نامے پر امریکہ کا صدر دنیا میں موجود ایک سپر پاور کا نمائندہ ہوتا ہے یہاں ہونے والے فیصلے ملکوں کو متاثر کرتے ہیں آنے والے مستقبل کو متاثر کرتے ہیں اس سپر پاور کی اس وقت بڑبولے متلون مزاج ڈونلڈ ٹرمپ نمائندگی کر رہے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک ریئلٹی ٹی وی شو دی اپرنٹس کے میزبان بھی رہ چکے ہیں۔ یہ شو 2004 سے 2017 تک نشر ہوتا رہا، اور اسی زمانے نے ان کے اندازِ گفتگو اور شخصیت میں وہ رنگ بھرا جو بعد میں سیاست میں بھی جھلکتا رہا۔اس رئیلٹی شو میں نوجوان بزنس مین شامل ہوتے تھے ان کو مختلف ٹاسک دیے جاتے ٹرمپ بزنس ٹائکون کی حیثیت سے اس پروگرام کے میزبان تھے اور وہ ان کو وقتاً وقتاً بزنس ایڈوائس کرتے اور اس میں جیتنے والوں کو ٹرمپ کی کمپنی میں اچھے مشاہرے پر ملازمت بھی دی جاتی تھی یہ بڑا مقبول شو تھا۔صدر ٹرمپ بنیادی طور پر ایک بزنس مین ہیں ، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج ٹرمپ اس عالمی اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ بن چکے ہیں جو جنگیں کرواتی ہے، اسلحہ بیچتی ہے، پھر امن کے نعرے لگا کر اپنے ہی لگائے زخموں پر پٹی رکھتی ہے۔یہ ہے وہ شخصیت جو اس وقت اس عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سرغنہ ہے جس نے پہلے دو سال تک غزہ میں بارود باری کی۔ دو سال تک اسرائیل کو اربوںڈالرکا اسلحہ دے کر غزہ میں نسل کشی کروائی اور اب غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کروایا ،جس معاہدے کی شقیں قاتل کے حق میں ہیں امن اور جنگ بندی کے پردے میں انتشار اور بے امنی کے نئے بیج بوئے گئے ہیں۔
ایک کامیاب مارکیٹنگ اسٹرٹیجسٹ کی طرح اس نئے منصوبے کا نام امن سلامتی اور مشترکہ تعاون رکھا گیا ہے ۔ٹرمپ عالمی معاملات کو ایک کاروباری ٹائیکون کی حیثیت سے چلاتے ہیں۔ وہ مارکیٹنگ اسٹرٹیجی کے ذریعے دنیا میں پہلے مسائل پیدا کرتے ہیں پھر ان مسائل کا حل پیش کرکے اپنا برینڈ اسٹیبلش کرتے ہیں۔مارکیٹنگ ایک ایسی ظالم فیلڈ ہے جس میں صرصر کو صبا اور ذرے کو چاند دکھایا جاتاہے ۔مارکیٹنگ بنیادی طور پر جھوٹ کا کاروبار ہے۔عالمی اسٹیبلشمنٹ کا غزہ جنگ بندی معاہدہ ایک دھوکہ اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔