• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندرا گاندھی نے 1971 میں پاکستان کودو لخت کرنے پر کہا کہ وہ میری زندگی کا حسین ترین لمحہ تھا جب بنگلہ دیش وجود میں آیا لیکن محض چار سال بعد ہندوستانی ایماء اور سرپرستی میں پاکستان کو دو لخت کرنے والے شیخ مجیب کو اپنے لوگوں نے 15 اگست کو خاندان کے 40 افراد سمیت صرف تین منٹ میں گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ اندرا گاندھی کو جب لال قلعے پر یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کے دوران اپنے وفادار کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو وہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ بنگلہ دیش بھی دوسرا پاکستان ہی ہے! یوں وہ "اکھنڈ بھارت" کا خواب لئے بلآخر قتل ہوئی۔اب یہی راستہ افغان حکومت نے بھی اختیار کیا ہے جیسے افغان رجیم ہندوستانی ایماء پر پاکستان کے خلاف دہشت گردی، قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہے نتیجتا ًپاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہی تھا۔ سوال یہ ہے کہ افغان حکومت پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ کر حاصل کیا کرے گی ؟ چاروں جانب سے زمین سے گھرا افغانستان بذریعہ پاکستان ہی ٹرانزٹ ٹریڈ پر انحصار کرتا ہے ۔پاکستان کے ذریعے ٹرانزٹ ٹریڈ بند ہونے سے 10 ہزار سے زائد کنٹینر کھڑے ہیں۔ افغان تاجر اپنی حکومت پر برس رہے ہیں کہ ان کے روزگار پر لات مار دی گئی ہے جبکہ روزمرہ کی اشیاء خورد و نوش آٹا، چاول، دال وغیرہ کی پاکستان کے ذریعے رسد معطل ہے۔ پاکستان کو پھلوں اور ڈرائی فروٹ کی بھی رسد بند ہونے سے افغان معیشت کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے ۔ حالیہ صورت حال میں ہندوستان کیسے اس کا متبادل انتظام کرے گا؟ چابہار بندرگاہ جو ہندوستان نے امریکی استثناء پر ایران سے 10 سال کے لیے لی تھی کا امریکہ نے استثناء واپس لے لیا ہے جس سے اس معاہدے کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ادھر افغان حکومت خود بھی دو دھڑوں میں تقسیم، آپس میں اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں،اس پر طرۂ یہ کہ شمالی اتحاد بھی کابل کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے۔ یوں بیک وقت اقتدار کی جنگ، باہمی لڑائی، شمالی اتحاد کی پیش قدمی، حکومت ِپاکستان کی برداشت کا ختم ہونا اور امریکہ کا بگرام ایئر بیس دوبارہ لینے کی دھمکیاں خطے کو غیر مستحکم کر رہی ہیں۔

طالبان رجیم کے پاس منظم فوج نہیں ہے بلکہ ہندوستانی فوج سے تربیت یافتہ 2 لاکھ فوج کے چند جتھے اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد ہیں جو حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں باقی زیادہ تر منتشر ہو چکے ہیں۔ یہ ہندوستانی تربیت یافتہ فوج تھی جسے امریکی اندازے کے مطابق دو سال تک طالبان کو کابل فتح کرنے سے روکنا تھا۔جبکہ یہ صرف 11 روز میں ٹھس ہو گئی اور 200 موٹر سائیکل سوار طالبان نے کابل فتح کر لیا ۔یہ وہ وقت تھا کہ 70 ہزار افغان طالبان جن کی ہم نے دامے، درمے، سخنے مدد کی،بطور فاتح حکومت تسلیم کیا جاتا یا کہا جاتا کہ ہمیں انہیں تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ امارتِ اسلامی افغانستان کو ہم 1996 میں تسلیم کر چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری اس وقت کی ناعاقبت اندیش حکومت نےعلیٰ الاعلان کہا کہ ہمیں افغانستان میں سٹریٹجک ڈیپتھ یعنی پاکستان ہمدرد حکومت کے قطعاً ضرورت نہیں۔ یوں ہم نے نہ صرف افغان طالبان کو بیچ منجدھار میں چھوڑا بلکہ پاکستان کی پشت کو غیر محفوظ بنا دیا ۔فوراً بعد حکومتِ وقت نے صدر مشرف کے دور میں کامیابی سے ملک بدر کی گئی ٹی ٹی پی سے براہِ راست مذاکرات کئے اور اے پی ایس سکول کے دہشت گردوں سمیت 114 خطرناک دہشت گرد رہا کیے، 45 ہزار افغانستان سے لا کر، خفیہ فنڈز فراہم کر کے انہیں کے پی کے میں اور پانچ ہزار کو بلوچستان میں آباد کیا ۔ وقت نے ثابت کیا کہ ٹی ٹی پی کبھی چھپ کر اور کبھی کھل کر پی ٹی آئی کی مزاحمتی تحریک میں شامل رہی اور اسکے عسکری ونگ کے طور پر کردار ادا کیا۔ اب تو کے پی کے حکومت کی رٹ اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ حکومتی اراکین خود ٹی ٹی پی( سرکاری طالبان) کو بھتہ یا تاوان دیتے ہیں لیکن مجال نہیں کہ اُف بھی کریں۔ ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ کارروائیوں، تباہ کاریوں اور پاکستان دشمنی پر پچھلے چار سالوں میں سینکڑوں دفعہ پاکستان نے افغان طالبان کو سمجھایا، خوش اسلوبی سے معاملات سلجھانے کے واسطے حل تجویز کیے، عمدہ پیشکشیں کیں، بار بار یاد دہانی کرائی کہ دوحہ معاہدے کے مطابق افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہوگی لیکن ہر بار" ڈھاک کے وہی تین پات" پر جا کر بات رک جاتی۔ افغان طالبان شروع دن سے ٹی ٹی پی کے ساتھ پسِ پردہ شامل رہے لیکن پاکستان کے سامنے غیر جانبدار بن کر ڈبل گیم کھیلتے رہے۔ میں نہ مانوں کا رویہ دراصل ان کے دلوں میں چھپے بغض کے باعث تھا کیونکہ پاکستان مخالف عناصر انہیں طعن و تشن کرتے کہ تمہاری حکومت تو فیض حمید نے چائے کی پیالی میں بنوائی ہے۔ وہ اپنے ہی لوگوں کے سامنے لاجواب ہو نے پر پاکستان کے بے لوث احسان بھول کر دشمن بن بیٹھے اور گڑے مردے اُکھاڑنے لگے۔ کبھی سوا سو سال پرانی ڈیورنڈ لائن کا قضیہ کھود نکالا تو کبھی اپنے نا قابلِ تسخیر ہونے سے ہمیں ڈرانے لگے حالانکہ انکی کامیابوں کے پیچھے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد کے علاوہ پاکستان کامرکزی کردار رہا ہے۔ در حقیقت اس سب بگاڑ کی ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت کی ناعاقبت اندیشی تھی۔

جنرل شیر علی پٹودی مرحوم کہا کرتے تھے کہ "افغان صرف حالتِ جنگ میں ہی سکون پا سکتے ہیں". وہ قبائلی نظام سے باہر نہیں نکلے نہ ہی اپنی منتقم مزاجی چھوڑ سکے۔ ہمیشہ ایسے ہی لڑتے رہیں گے اور اپنی قوم کو ایک کے بعد دوسری جنگ میں جھونکتے رہیں گے،کبھی کرایے پر اور کبھی بغض اور بدلے کی خاطر۔مشرقی پاکستان کے عوام کو ہندوستان نے پراپیگنڈے کے ذریعے بہکا کر پاکستان سے علیحدہ کیا لیکن 53 سال بعد ان پر حقیقت آشکار ہوگئی کہ کیسے انہیں شیخ مجیب نے ہندوستان کو بیچا تھا۔ بعینی افغان حکومت بھی اپنی قوم کا اسی ہندوستان سے سودا کرنے جا رہی ہے جس کا صرف افغانستان اور افغان قوم کو ہی نقصان ہوگا۔ اب تو اسی ہندوستان سے نئی افغان فوج تیار کرنے کا معاہدہ بھی ہو رہا ہے۔ ہندوستان کی دوستی میں آج تک کسی نے فلاح نہ پائی نہ پائے گا، وہ کبھی اپنے اتحادیوں کی مدد کو نہ آیا۔ افغانستان سے ہندوستان کی بغض و نفرت محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ عبدالی کے دور سے سر چڑھ کر بولتی ہے جبکہ پاکستان نے تو ان افغانوں کو ہیرو تسلیم کرتے ہوئے فخر سے اپنے میزائلوں کے نام ان پر رکھے ہیں۔افغان قوم ہوش کرے اور اپنے دیرپا مفاد میں فیصلے کرے وگرنہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے قیمتی جوانوں کی روزانہ قربانیاں دینے کے بجائے اب شہیدوں کے خون کا بدلہ لے۔ غیرت مند اور باحمیت قومیں اپنے شہیدوں کو بھولتی نہیں۔ پاکستانی قوم بھی اب ثابت کرے گی کہ کتنی باغیرت اور باحمیت ہے۔ انشاءاللہ!

صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر

جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز

تازہ ترین