• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کے آخری پہر جب طورخم کے پہاڑوں پر سناٹا چھایا ہوا تھا، اچانک خاموش فضا میں توپوں کی گرج سنائی دی۔ آسمان پر روشنی کی لکیریں چمکیں، زمین لرز اٹھی۔ یہ کوئی معمولی جھڑپ نہیں تھی —یہ فتنہ الخوارج کیخلاف پاک فوج کا فیصلہ کن آپریشن تھا۔ ان دہشت گردوں نے دن دہاڑے ہمارے سپاہیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا، مگر جواب میں پاکستان نے وہ کر دکھایا جو دشمن نے سوچا بھی نہ تھا۔

صبح کی روشنی میں جب دھواں چھٹا، تو پاکستان کے پرچم نے ایک بار پھر فتح کی خوشبو سے فضا معطر کر دی۔یہ منظر صرف ایک جنگی کارروائی نہیں تھا، بلکہ پاکستان کی خودمختاری کا اعلان تھا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے واضح پیغام دیا’’یہ جنگ ہم نے اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے لڑی ہے، کسی کے کہنے پر نہیں‘‘۔

پاکستان کی افواج نے نہایت تدبیر اور انسانی احساس کے ساتھ یہ آپریشن کیا۔ ایک طرف فتنہ الخوارج کے تربیتی مراکز اور اسلحہ ڈپو تباہ کیے گئے، تو دوسری طرف عام افغان عوام کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا۔ کوئی گاؤں نشانہ نہیں بنا، کوئی شہری متاثر نہیں ہوا۔ افغان سرزمین پر موجود فتنہ الخوارج دراصل بھارت کے اشاروں پر کھیلنے والا مہرہ ہیں۔ ان کی فنڈنگ، تربیت اور منصوبہ بندی سب دہلی کے دفتروں میں ہوتی تھی۔ ان کا مقصد پاکستان کو اندر سے توڑنا، فرقہ وارانہ اور لسانی نفرت کو ہوا دینا، اور بلوچستان و خیبر پختونخوا کو میدانِ جنگ میں بدلناہے۔ لیکن عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے نہ صرف ان کے نیٹ ورک کو تباہ کیا بلکہ بھارت کو بھی یہ پیغام دیا کہ اب پاکستان کی سرحدیں ناقابلِ عبور ہیں۔یہ فتح صرف میدانِ جنگ میں نہیں ملی، بلکہ تدبر اور قیادت کے کمال سے حاصل ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سیاسی سطح پر وہ ہم آہنگی دکھائی جو برسوں سے ناپید تھی۔ عسکری اور سیاسی قیادت ایک صفحے پر آئی، فیصلے مشاورت سے ہوئے، اور دنیا نے دیکھا کہ جب قیادت متحد ہو تو کوئی دشمن زیادہ دیر کھڑا نہیں رہ سکتا۔

قوم کے جوان’’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘کے اصولوں پر قائم ہوں، اسے کوئی فتنہ زیر نہیں کر سکتا۔پاکستان نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ اس کا مقصد افغان عوام سے دشمنی نہیں بلکہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ پاک فوج نے کارروائی کے دوران افغان بھائیوں کیلئے انسانی ہمدردی کے دروازے کھلے رکھے۔ زخمیوں کو طبی امداد دی گئی، بے گھر خاندانوں کیلئے راشن اور خیمے فراہم کیے گئے۔ یہی وہ امتیاز ہے جو پاک فوج کو دنیا کی ہر فوج سے ممتاز کرتا ہے کہ وہ جنگ بھی انسانیت کے دائرے میں رہ کر لڑتی ہے۔افغانستان کیلئے پاکستان ہمیشہ زندگی کی راہ رہا ہے۔ جب سوویت یونین کی یلغار سے افغان عوام بے گھر ہوئے، تو پاکستان نے انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ آج بھی افغانستان کی تجارت، خوراک، ادویات، ایندھن اور روزگار کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے۔ اگر پاکستان تجارتی تعاون روک دے تو افغانستان کے بازار خالی ہو جائیں، کرنسی کمزور پڑ جائے اور عوام مشکلات میں گھر جائیں۔ یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ افغانستان کی معیشت پاکستان کے راستے سے سانس لیتی ہے۔تاہم مسئلہ صرف تجارت کا نہیں اعتماد کا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد ڈیورنڈ لائن کے تنازعے، پشتونستان کے مطالبے، افغان سرزمین پر پاکستان مخالف گروہوں کی پناہ، طالبان حکومت کے دہرے رویے، اور بھارتی اثر و رسوخ سے ہل چکی ہے۔فتنہ الخوارج انہی دراڑوں میں پنپا، اور بھارت نے ان دراڑوں کو خون سے بھر دیا۔ مگر اب وہ کھیل ختم ہو گیا ہے۔ پاکستان نے یہ باب بند کر دیا ہے —ایک نئے عزم کے ساتھ کہ امن کی راہ اب پاکستان کی شرائط پر چلے گی، کسی اور کے ایجنڈے پر نہیں۔

جنرل عاصم منیر کی قیادت میں آپریشن کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ امن کمزوری نہیں، طاقت کی علامت ہے۔ پاکستان نے دنیا کو بتایا کہ ہم جنگ کے خواہش مند نہیں لیکن اگر کوئی ہمارے امن کو للکارتا ہے تو اسے عبرت کی مثال بنا دیتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے درست کہا تھا’’پاکستان کسی کے اشارے پر نہیں جھکے گا، ہم امن چاہتے ہیں لیکن اپنی عزت اور خودمختاری کے ساتھ‘‘۔

یہ کالم صرف ایک جنگی کامیابی کا تذکرہ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی فتح کی کہانی ہے۔ یہ کہانی اس قوم کی ہے جو جھکتی نہیں، بکتی نہیں، اور جب اس کی سرحدوں پر سایہ پڑتا ہے تو وہ پوری دنیا کو یہ باور کرا دیتی ہے کہ یہ زمین لا الٰہ الا اللہ کے نام پر بنی ہے، اور اس کے دفاع کیلئےایک ایک سپاہی اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہے۔

تازہ ترین