• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کم و بیش 15برس قبل جب جنگ کے ادارتی صفحات پر کالم لکھتے چند ماہ ہی ہوئے تھے،ایک لرزہ خیز انکشاف نے مجھے پریشان کردیا۔ ایک دوست نے ایک بڑے اخبار کےچیف رپورٹرسے ملاقات کروائی تو انہوں نے مصافحہ کرتے ہوئے نہایت معنی خیز انداز میں کہا ،اچھا تو آپ ہیں بلال غوری ؟ میں چونک گیا اور پوچھا،جی سر کیا ہوا؟ کہنے لگے طیفی اور اسکے کزن نے آپ کی سپاری دی تھی ،فیلڈنگ لگائی گئی،کچھ دن ٹیموں نے آپ کا تعاقب کیا،پتہ چلا کہ آپ لاہور ایئر پورٹ کے سامنے ڈی ایچ اے فیز 8میں رہتے ہیں۔تب آپ کے پاس سفید رنگ کی کلٹس گاڑی تھی ناں فلاں نمبر کی ؟تمہاری قسمت اچھی ہے جو بچ گئے۔میں نے خود کو بمشکل سنبھالتے ہوئے کہا،زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر میرا قصور کیا ہے؟میرا انڈر ورلڈسے کیا لینا دینا؟میری تو لاہور شہر میں ایک مرلہ زمین بھی نہیں ،داتا کی نگری میں ،میں کسی گھر،فلیٹ یا دکان کا مالک نہیں کہ اس پر قبضہ مافیا سے جھگڑا ہو۔پھر جرائم پیشہ افراد کو مجھ سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ ۔آپ لاہور اور اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبار کے مدیر ہوا کرتے تھے؟رپورٹرنے تجسس برقرار رکھتے ہوئے سوال کیا ۔میں نے جھٹ سے جواب دیا،جی بالکل مگر اس ایڈیٹری کا اس بات سے کیا لینا دینا۔’’آپ نے اس اخبار میں لاہور کے ایک معروف خاندان کی خاتون کارنگین صفحہ پر مشتمل انٹرویو شائع کیا تھا ‘‘رپورٹرصاحب نے ایک اور سوال میری طرف اچھال دیا۔میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا،جی ہاں ایسا ہی ہے مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس انٹرویو کی اشاعت پر طیفی یا ان کا کزن مجھے مروانا کیوں چاہیں گے ؟رپورٹرنے پہلو بدلا اور کہا ،اس انٹرویو میں اس خاتون نے الزام لگایا تھاکہ اس کے پاس کوئی آڈیو موجود ہے جس میں طیفی اور اسکا کزن اسے مروانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔میں نے کہا،رپورٹرصاحب! جو اس نے کہا،ہم نے چھاپ دیا اس پر تردیدی موقف دیا جا سکتا تھا مگر کیا اتنی سی بات پر کسی کو جان سے مارنے کیلئےشوٹرز بھجوائے جاتے ہیں ؟خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ اور اور انکےکزن سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔لاہور میں بٹ خاندان کے علاوہ ٹرکاں والا خاندان کی بھی دہشت کچھ کم نہ تھی۔ان دونوں خاندانوں کے درمیان معاصرانہ چشمک نے صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا۔باہمی رنجش اور بغض و عناد کے بیشمار اسباب رہے ہوں گے مگر حقیقی وجہ نزاع یہ تھی کہ لاہور شہر میں جرائم کی دنیا پر کس کا راج ہوگا،بے تاج بادشاہ کون کہلائے گا۔دو کشمیری خاندانوں کی اس لڑائی نے دیکھتے ہی دیکھتے گینگ وار کی شکل اختیار کرلی۔امیر الدین پہلوان المعروف بلا ٹرکاں والا جن کا شاہ عالم مارکیٹ میں گڈز ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا ، انہیں اشتہاریوں نے قتل کیا۔ان کے بیٹے امیر عارف عرف ٹیپو ٹرکاں والے نے گدی سنبھالی جنہیں 2010ءمیں دبئی سے واپسی پر لاہور ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہوئے قتل کردیا گیا۔اب دشمنی نباہنے اور خاندانی کاروبار چلانے کی ذمہ داری امیر بالاج کے کندھوں پر آن پڑی۔ ایک موقع پر دونوں خاندانوں میں صلح کی خبریں آئیں معلوم ہوا کہ خواجہ تعریف گلشن اور امیر بالاج اب چچا،بھتیجا ہو گئے ہیں مگر دلوں کی کدورتیں دور نہ ہوئیں اور گزشتہ برس امیر بالاج کو ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب شادی کی تقریب میں قتل کردیا گیا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس واردات میں امیر بالاج کے قریبی دوست احسن شاہ ملوث تھے جنہوں نے طیفی بٹ سے ملکر سازش رچائی۔یہ بھی بعد ازاں دوران تفتیش ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔اس دوران اہم شخصیات کے علاوہ بیسیوں پیادے جان سے گئے۔ طیفی بٹ کے بہنوئی جاوید بٹ قتل ہوئے اور اب انڈر ورلڈ ڈان کہلانے والے خواجہ تعریف گلشن المعروف طیفی بٹ بھی مبینہ پولیس مقابلے کے ذریعے مارے جاچکے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا کئی عشروں سے جاری گینگ وار ختم ہوجائے گی ؟ کیا دشمنی اور انتقام کا سلسلہ تھم جائے گا یا پھر یہ خونیں لہر یونہی زندگیاں نگلتی رہے گی؟مجھے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی نیک نیتی اور اخلاص پر کوئی شک نہیں۔ان کے احکامات پر کام کررہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارادے بھی یقیناً اچھے ہوں گے مگر اس حوالے سے میری سوچ بہت واضح ہے اور میں برملا اس کا اظہاربھی کرتا رہتا ہوں۔میری دانست میں خون کے دھبے خون سے نہیں دھوئے جاسکتے۔ لاقانونیت کی کوکھ سے امن و آشتی جنم نہیں لے سکتی۔ پولیس مقابلوں کے ذریعے معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کی مہم جوئی نئی نہیں۔اس سے پہلے بھی کئی بار یہ لاحاصل مشق اور بے نتیجہ تجربات کئےجاچکے ہیں۔اس طرح کے اقدامات سے عوامی سطح پر فوری پذیرائی ملتی ہے،خوف و دہشت کی فضا بن جانے سے وقتی طور پر جرائم پیشہ افراد زیر زمین چلے جاتے ہیں لیکن ان کے اندر جرم کے ارتکاب کی آگ سلگتی رہتی ہے۔ایک انڈر ورلڈ ڈان کو ختم کردیا جاتا ہے تو اس کی جگہ لینےکیلئے کئی اور بدمعاش آجاتے ہیں بلکہ ہر گلی محلے کا غنڈا دادا گیری کرنے لگتا ہے۔جرائم محض سزائوں کو یقینی بنانے اور قانون کی عملداری سے ہی ختم کئے جا سکتے ہیں۔جس طرح سیاسی جماعتوں اور نظریات کو طبعی موت مرنے دینا ہی بہتر ہوتا ہے اسی طرح یہ انڈر ورلڈ ڈان بھی قانون کی عملداری کے ذریعے اپنی موت آپ مرکر نشان عبرت بن جائیں تو ہی یہ رجحان ختم ہو سکتا ہے،مشکوک اور مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاکت تو انہیں مظلوم بناتی اور انتقام کی آگ کو مزید دہکاتی ہے۔اگر میری بات سے اتفاق نہیں تو وزیراعظم شہبازشریف کی رائے معلوم کر لیجئے۔انہوں نے بھی بطور وزیراعلیٰ پنجاب جرائم کو ختم کرنے کیلئے یہ شارٹ کٹ استعمال کرکے دیکھا تھا،کیا ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا ؟بصد احترام عرض کروں گا کہ ایک ہی تجربہ اس امید پر باربار دہرانا کہ شاید اس بار نتیجہ مختلف ہوگا،نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟

تازہ ترین