• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی دماغ کے خلیات سے کمپوٹرز کو طاقت فراہم کرنے کی تیاری

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

سوئٹزر لینڈ کے سائنسدان انسانی دماغ کے خلیات کو زندہ رکھنے کے لیے اس کے چھوٹے ٹکروں کو غذائیت سے بھرپور سیال میں محفوظ کر رہے ہیں۔ یہ تیاری انسانی دماغ کے خلیات سے چلنے والے سُپر کمپیوٹر کے لیے کی جارہی ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق مستقبل میں دماغی خلیوں سے بنے پروسیسر اُن چِپس کی جگہ لے سکتے ہیں جو آج مصنوعی ذہانت کو طاقت دے رہے ہیں۔

تحقیق کے اس نئے شعبے کو، جسے بائیو کمپیوٹنگ یا ویٹ ویئر کہا جاتا ہے، کا مقصد کمپیوٹر کو طاقت دینے کے لیے ابتدائی طور پر انسانی دماغ کے خلیات کا استعمال کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی دماغ کے خلیات زندہ اور صحت مند رہیں کیونکہ یہ کمپیوٹر کے پروسیسرز کے طور پر کام کریں گے۔

سوئس اسٹارٹ اپ فائنل اسپارک کی لیب کے دورے کے دوران، شریک بانی فریڈ جارڈن نے بتایا کہ میرا ماننا ہے کہ انسانی دماغی خلیات استعمال کرنے والے پروسیسرز ایک دن مصنوعی ذہانت کو طاقت دینے والی چپس کی جگہ لے لیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ روایتی سپر کمپیوٹر جس کی مدد سے چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز کام کر رہے ہیں فی الحال انسانی دماغ کے نیورونز اور نیٹ ورکس کی نقل بناتے ہیں، جس کے لیے سلیکون سیمی کنڈکٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب نقل کے بجائے اصل خلیوں کو ہی استعمال کیا جائے گا۔

فریڈ جارڈن کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی نیورونز، مصنوعی نیورونز کے مقابلے میں 10 لاکھ گنا زیادہ توانائی مؤثر ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے توانائی کے بحران کا حل ثابت ہوسکتے ہیں۔ چِپس کی عالمی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ ان خلیوں کو لیبارٹری میں بار بار پیدا کیا جاسکتا ہے۔

فائنل اسپارک انسانی جلد کے خلیات سے سٹیم سیلز خریدتی ہے، جنہیں لیبارٹری میں نیورونز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ پھر انہیں ملی میٹر سائز کے چھوٹے دماغی جھرمٹوں (برین آرگنوئیڈ) کی شکل میں جمع کیا جاتا ہے، جن کا سائز تقریباً ایک مکھی کے لاروا کے دماغ کے برابر ہوتا ہے۔

فائنل اسپارک کے مطابق دنیا کی 10 جامعات ان کے برین آرگنوئیڈز پر تحقیق کر رہی ہیں۔ ایک آرگنوئیڈ 6 ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے۔

امریکی یونیورسٹی میں انہی آرگنوئیڈز کو استعمال کر کے آٹزم اور الزائمر جیسی دماغی بیماریوں پر تحقیق کی جارہی ہے، تاکہ نئی ادویات کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن اگلے 20 برسوں میں حیاتیاتی کمپیوٹنگ (biocomputing) ٹیکنالوجی میں انقلابی پیش رفت ممکن ہے۔ جہاں تک ان آرگنوئیڈز کے شعور حاصل کرنے کے امکان کا تعلق ہے، تمام ماہرین اس خیال کو مسترد کرتے ہیں۔

فریڈ جارڈن کا کہنا ہے کہ یہ خلیے نہ تو درد محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی آگاہی رکھتے ہیں، کیونکہ ان میں صرف 10 ہزار نیورونز ہوتے ہیں، جبکہ انسانی دماغ میں تقریباً 100 ارب نیورونز پائے جاتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جب لیبارٹری کا انکیوبیٹر کھولا جاتا ہے تو یہ خلیے اچانک متحرک ہو جاتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس یہ جاننے کا کوئی معروف طریقہ نہیں کہ دروازہ کھولا گیا ہے۔ فریڈ جارڈن کے مطابق وہ اب تک نہیں سمجھ پائے کہ یہ خلیے اس تبدیلی کا احساس کیسے کرتے ہیں۔

خاص رپورٹ سے مزید