• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان بنا تو دیگر اثاثوں کے ساتھ علمی اثاثوں کی تقسیم کا معاملہ بھی سامنے آیا۔سو پہلا مرحلہ ہی انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود دستاویزات اور مخطوطات پر وراثت کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے دعووں کا فیصلہ ہونا تھا۔ممکن ہےسابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم محمد فضل الرحمن کا کوئی علمی اور ادبی پس منظر بھی ہو مگر جب ان کے مقابلے پر ابوالکلام آزاد بھارت کے وزیر تعلیم بیٹھے ہوتے تو جوش و خروش سے بھری ہماری مملکت کی طرف سے اس مقدمے میں کیا دلائل پیش ہوتے ہوں گے ۔ اس کا اندازہ ہمارے بزرگوں(عبدالمجید سالک،مولانا غلام رسول مہر، چراغ حسرت) کے کالموں سے ہوجاتا ہے میرا خیال ہے سند باد جہازی(چراغ حسن حسرت) نے دونوں ملکوں کے وزرائے تعلیم کے خیالی مکالمے بھی لکھے تھے جن میں ابوالکلام آزاد اپنے مد مقابل وزیر تعلیم سے کہتے ہیں کہ مرزا غالب کے دو شعر ہی سنا دیں یا ان کے خطوط کے ایک مجموعے کا نام بتادیں۔ شاید یہی صورت حال تھی کہ جب راجہ غضنفر علی کو پاکستانی وفد میں شامل کیا گیا تاہم یہ معاملہ لٹکا رہا۔تب ٹیکنالوجی اس حد تک تھی کہ کیمرے کی مدد سے کچھ مخطوطات کی کاپیاں بنائی جا سکتی تھیں پھر مائیکرو فلم کا دور آیاتب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جو اچھے اور لائق لوگ اسلام آباد میں ایجوکیشنل ایڈوائزر ہو کے گئے تھے ان میں ہمارے انگریزی کے استاد چوہدری نذیر احمد بھی تھے انہوں نے اس کیس پر بہت محنت کی وہ کیبنٹ ڈویژن میں جوائنٹ سیکرٹری ہو گئے تھے اسلئے مقتدرہ قومی زبان نے ان مخطوطات، دستاویزات کی ایک فہرست شائع کی تھی اور جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بہت بڑے لوگوں(ڈاکٹر مبارک علی ،آئی اے رحمان،احمد بشیر) کے ساتھ ایک ملتانی بھی قومی کمیشن برائے تاریخ و ثقافت کا رکن ہوا تو چوہدری نذیراحمد مرحوم نےنم آلود آنکھوں سے کہا کہ میں نے پاکستان کی ساری یونیورسٹیوں کے تاریخ،اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے پروفیسروں کو یہ فہرست اس درخواست کے ساتھ بھیجی ہے کہ اپنے شاگردوں کو ریسرچ کیلئے یہاں بھیجیں ابھی تک میں نے کسی ایک طالب علم کو یہاں نہیں دیکھا پھر جب ملتان کا ایک لائق طالب علم مختار احمد پارس چوہدری نذیر احمد مرحوم کے منصب پر فائز ہوا تو اس نے نیشنل لائبریری کے اس گوشے میں موجود سرمائے کو آن لائن کر دیا۔ اب یہ اور بات ہے کہ جس طرح کے اصحاب علم ہماری جامعات تو کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سربراہی کیلئے باہم برسر پیکار ہیں ان میں سے کوئی پوچھ بھی سکتا ہے کہ کون ابوالکلام آزاد؟۔بھارت سے جو خبریں آتی ہیں اس سے ایک طرح کی خوشی ہوتی ہے کہ وہاں ابوالکلام کے مقابلے عبدالکلام کی راکٹ سازی کو اہمیت دی جاتی ہے ۔تاہم ہمارے لئے قابل فخر ہے میں لاہور میں مجلس ترقی ادب قیام پاکستان کے سات برس بعد قائم ہوئی جس کے ناظم نامور ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج ہوئے پھر سید وقار عظیم آئے تو انہوں نے انکے مرتبہ ڈراموں( رونق بنارسی، حباب ،آرام کے) پر اپنا نام نہیں لکھوایا پھر سچی بات ہے کہ اس کے ناظم احمد ندیم قاسمی ہوئے وہ پاکستان کے سینئر ترین قلم کار اور شاعر تھے،ہر مکتوب کا جواب خود لکھتے تھے۔انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر آسمان بیلن اوزجان ’پروین شاکر اردو میں ایک معتبر نسائی آواز‘ پر ڈاکٹریٹ کا کام کرتے ہوئے پاکستان آئیں تو ان کی شفقت سے ایسی متاثر ہوئیں کہ قاسمی صاحب کا صد سالہ یوم ولادت انقرہ اور انطالیہ میں منایا گیا اور مرکزی تقریب میں ڈاکٹر ناہید قاسمی اپنے بیٹے نیر حیات(موجودہ مدیر فنون) کے ساتھ شریک ہوئیں۔ قاسمی صاحب کا احترام ممکن ہے ان کے دفتر کے ایک آدھ ساتھی نہ کرتے ہوں مگر کسی سیکرٹری مالیات یا سیکرٹری اطلاعات تو کیا وزیر اعلیٰ تک کی توقیر اسی میں تھی کہ ان کی سفارشات کو مانا جائے ۔ سو مجلس ترقی ادب کی کتب نے بھارت تک میں دھوم مچا دی تھی دوست وہاں سے فرمائش کرتے تھے کہ یہ کتاب مجلس کی بھجوا دیجئے جواب میں ہم انجمن ترقی ہند یا یادگار غالب کی کتابیں پیش کریں گے۔آج اس مجلس کے ناظم بے حد مقبول شاعر عباس تابش ہیں جو مجلس کی کتب کی اشاعت کے ساتھ تدوین نو کا کام بھی کر رہے ہیں اور صحیفہ کی اشاعت پر بھی توجہ ہے۔ مجلس ترقی ادب کے قیام سے چار برس پہلے ادارہ ثقافت اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا جس کے سربراہ نامور فلسفی خلیفہ عبدالحکیم ہوئے جنہوں نے خطبات اقبال کی تنقیدی تلخیص پیش کی اور ایک کتابچہ ’اقبال اور ملا‘ بھی شائع کیا جس پر حکمت اقبال سے نا آشنا اس حد تک مشتعل ہوئے کہ فکر اقبال جیسی بنیادی کتاب کو جامعہ پنجاب کے نصاب سے خارج کر دیا اسی ادارے میں خلیفہ عبدالحکیم کے بعد ہم سب کے پیارے قاضی جاوید آئے،’منڈلی‘ والے، فلسفہ ،وارث شاہ،شاہ حسین اوربابا فرید کے ساتھ ڈاکٹر اجمل،فیض اور کے کے عزیزپر لکھنے والے صوفی منش مگر باآواز بلند سوچنے والے۔ مجھے یاد ہے کہ ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کی پہلی رجسٹرار ڈاکٹر خالدہ گیلانی کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی اشاعت کیلئے مسودہ لے کے گیا اور مرحومہ ڈاکٹر گیلانی کی طرف سے پیشکش کی کہ وہ مصارف میں شریک ہو جائیں گی اگر اچھا کاغذ اور اچھی جلد کتاب کو میسر آ جائے تو انہوں نے بتایا کہ میرے پاس تجربہ کار کمپوزر ہیں ،پروف ریڈر ہیں مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے ادارے کا ایک رسالہ "المعارف " شائع کرتے ہیں جس کی بھارت،امریکہ اور یورپ میں بھی مانگ ہے ۔اب اس ادارے کے ناظم ایف سی کالج لاہور کے سابق پرنسپل جامعہ الازہر میں اردو چیئر پر کام کرنے والے ڈاکٹر مظفر عباس ہیں جو اس ادارےکے سال تاسیس کی پچھترویں سال گرہ پر کتب کی اشاعت کا ’پر ہوس‘ ارادہ رکھتے ہیں انہیں یہ عزم مبارک ہو۔

تازہ ترین