• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سرزمین نے گزشتہ چار دہائیوں میں وہ قربانیاں دی ہیں جن کی مثال جدید تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ جب افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوا تو پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت اپنی سرحدیں کھول دیں، کیمپ لگائے، پناہ گاہیں بنائیں اور لاکھوں افغان خاندانوں کو اپنے دامن میں جگہ دی۔ پاکستانی ریاست نے یہ قدم کسی وقتی مصلحت کے تحت نہیں بلکہ خلوص، اسلامی بھائی چارے اور علاقائی استحکام کی امید میں اٹھایا تھا۔لیکن آج، جب چار دہائیاں گزر چکی ہیں، پاکستان یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ اسے اس احسان کے بدلے میں کیا ملا؟ افغان شہریوں نے پاکستان کی مہمان نوازی کا کیا صلہ دیا؟ اور اس مہمان نوازی نے پاکستان کی سلامتی، معیشت، سیاست اور معاشرت پر کیا اثرات ڈالے؟

افغان مہاجرین کی آمد کا پہلا بڑا باب اس وقت کھلا جب افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں۔ لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے اور سرحدی علاقوں میں پناہ گزین ہوئے۔ اس وقت پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر ان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری قبول کی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ عارضی قیام مستقل سکونت میں بدل گیا۔ پناہ گزین محض سرحدی علاقوں تک محدود نہ رہے بلکہ ملک کے بڑے شہروں تک پھیل گئے۔کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور اور اسلام آباد جیسے شہر افغان شہریوں کی غیر معمولی آباد کاری کا مرکز بن گئے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے کاروبار کیے، جائیدادیں خریدیں، جعلی شناختی کارڈ بنوائے اور مقامی آبادی میں مدغم ہو گئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا غیر رسمی اور غیر قانونی ڈھانچہ وجود میں آیا جو ریاست کے کنٹرول سے باہر تھا۔

افغان شہریوں کی موجودگی نے پاکستان کے داخلی امن و امان پر گہرے اثرات ڈالے۔ بھتہ خوری، اسلحہ فروشی، منشیات کی اسمگلنگ، زمینوں پر قبضے اور دیگر سنگین جرائم میں ان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان گروہوں نے مقامی نظام پر دباؤ ڈالا اور ریاستی رٹ کو کمزور کیا۔بلوچستان میں افغان شہریوں کی بڑی تعداد نے علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروہوں کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ سرحدی پٹی سے دہشت گرد عناصر کی آمد و رفت نے ریاست پاکستان کے سلامتی کے نظام کو غیر معمولی دباؤ میں ڈال دیا۔ افغان پناہ گزین کیمپ کئی مواقع پر دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے پناہ گاہ بنے، جہاں سے پاکستان کے مختلف شہروں میں حملوں کی منصوبہ بندی ہوئی۔

پاکستانی ریاست کیلئے یہ سب کچھ محض انسانی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک براہ راست قومی سلامتی کا مسئلہ بن گیا۔ پاکستان کے فوجی جوان اور افسر دہشت گردی کیخلاف لڑتے رہے، ہزاروں شہادتیں پیش ہوئیں، بے شمار آپریشن ہوئے، مگر دہشت گرد عناصر افغان سرزمین اور پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کے درمیان نقل و حرکت کرتے رہے۔ اس صورتحال نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کو مزید مشکل اور طویل بنا دیا۔پاکستانی معیشت پر افغان پناہ گزینوں کا بوجھ ناقابلِ بیان ہے۔ لاکھوں غیر رجسٹرڈ افغان شہری پاکستانی سہولیات استعمال کرتے رہے، ٹیکس دیے بغیر کاروبار کرتے رہے، بجلی اور گیس چوری کرتے رہے اور مقامی مزدوروں کے روزگار پر اثر انداز ہوتے رہے۔ اس سے نہ صرف معیشت کمزور ہوئی بلکہ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا۔افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کے شناختی نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ لاکھوں افغان شہریوں نے جعلی شناختی کارڈ حاصل کیے، ووٹر لسٹوں میں شامل ہوئے، اور کئی سیاسی حلقوں میں ان کا اثر و رسوخ بڑھا۔ یہ صورتحال ریاستی خودمختاری کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔

پاکستان میں مختلف ادوار میں حکومتوں نے افغان پناہ گزینوں کے اندراج، واپسی اور کنٹرول کیلئے پالیسیاں بنانے کی کوشش کی، لیکن بین الاقوامی دباؤ، اندرونی سیاسی کمزوریاں اور انسانی ہمدردی کے جذبات کے باعث یہ پالیسیاں کبھی مکمل طور پر نافذ نہ ہو سکیں۔ افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد اب دوسری اور تیسری نسل میں داخل ہو چکی ہے اور وہ خود کو پاکستان کا مستقل حصہ سمجھنے لگے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ افغان شہریوں کا ایک بڑا طبقہ پاکستان کے خلاف منفی جذبات رکھتا ہے۔ جب بھی پاکستان کو افغانستان سے کسی سیکورٹی خطرے کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں سے کئی افراد افغان ریاست یا افغان طالبان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ یہ آبادی ریاست پاکستان کے ساتھ اپنی شناخت اور وابستگی میں سنجیدہ نہیں۔افغان سرزمین آج بھی پاکستان مخالف گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ وہاں سے دہشت گرد پاکستان کے سرحدی علاقوں میں حملے کرتے ہیں۔ پاکستانی افواج اور سیکورٹی ادارے ان حملوں کو روکنے میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال نے پاکستان کی داخلی سلامتی کو ایک مستقل دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کے مسئلے کو محض انسانی ہمدردی کے تناظر میں نہیں بلکہ قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر دیکھے۔ اس کیلئے ایک واضح اور سخت پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی سرحدوں کے سخت کنٹرول، غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کی واپسی، شناختی نظام کی اصلاح، اور افغان نیٹ ورکس کی مکمل نگرانی پر مبنی ہونی چاہیے۔دنیا کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان پر افغان پناہ گزینوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر عالمی برادری افغانستان میں امن چاہتی ہے تو اسے پاکستان پر اس بوجھ کو کم کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ افغان پناہ گزینوں کی واپسی کیلئے مالی، تکنیکی اور سیاسی تعاون فراہم کرنا ہوگا۔

تازہ ترین