• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اس نامکمل ’’سیاسی سفر‘‘ کا اختتامی کالم ہے۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر کچھ مواد محفوظ کرلیا ہے کسی اور وقت کیلئے اس 42سالہ صحافتی سفر میں بحیثیت صحافی سیاست کو بھی اور سیاستدانوں کو بھی قریب سے دیکھنے ،بات کرنے کا موقع ملا۔انتخابی سیاست اقتدار میں آنےکیلئے ہی کی جاتی ہے مگر کیا ’’اقدار‘‘ کو قربان کرکے اقتدار حاصل کرنا جائز ہے زیادہ تر سیاستدان اپوزیشن میں اصولی اور اقتدار میں آنے کے بعد ’’وصولی‘‘ والے نظر آئے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جو نعرے جلسوں میں لگائے جاتے ان کو اقتدار میں آنے کے بعد کسی ’’بند فائل‘‘کی طرح بند ہوتے دیکھا ذاتی ملاقاتوں میں کئی بار یہ بات بھی باور کرائی کہ ’’سمجھوتہ‘‘ کا اقتدار پائیدار نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے پاس ہوتا ہے ۔بدقسمتی ہماری بڑی سیاسی جماعتیں ادارہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہیں،ناہی اپنی اپنی جماعتوں میں جمہوریت لاپائیں اور سب سے بڑھ کر اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کرکے ، ان جماعتوں نے خود جمہوریت کو کمزور کیا اور نتیجہ ہمارے سامنے، برسوں سے ایمپائر کی انگلی پکڑ کر چلنے کی عادت ہوگئی ہے سیاسی جماعتوں کو خود احتسابی کی ضرورت ہے مگر اتنی برداشت کس میں ہے۔ اس وقت ہم ایک غیر جمہوری پارلیمانی نظام کی زد میں ہیں اسلئے نہیں کہ جموری پارلیمانی نظام میں ادارے آزاد اور خود مختار ہوتے ہیں یہاں تو نا عدلیہ آزاد ہے نا میڈیا ،یہ تو بات ہوئی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی، دو مثالیں دیکر آگے بڑھتا ہوں 1988ءمیں محترمہ بے نظیربھٹو پاکستان کی مقبول ترین رہنما تھیں اور اگر ISIکے سابق سربراہ جنرل حمید گل ان کےخلاف جماعتوں کو اسلامی جمہوری اتحاد(IJI) بنانے کا تحفہ نہ دیتے تو بی بی کو دو تہائی اکثریت مل جاتی یہ سیاست میں بدترین مداخلت تھی ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی پہلے بی بی کے خلاف عورت کی حکمرانی والا کارڈ کھیلا۔ جب اسکے باوجود وہ جیت کر آگئیں تو اقتدار کی منتقلی میں غیر ضروری تاخیر کی گئی اور شرائط کی فہرست رکھ دی گئی نا صرف من پسند افراد کو وزیر بنانے کی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ہماری افغان پالیسی جاری رکھنی ہے ۔ ذاتی طور پر میں نے ان خبروں کے بارے میں ان سے پوچھا کہنے لگیں ’’پہلے میر الیکشن روکا گیا پھر اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کی گئی اور اب مشروط اقتدار دیا جارہا ہے‘‘میں نے کہا اپوزیشن میں بیٹھ جائیں ، ایم آرڈی کو مضبوط کردیں کہنے لگیں’’مظہر، میری پارٹی کی اکثریت کا خیال ہے کہ اقتدار میں آ کر کم ازکم برسوں سے جیلوں میں بند سیاسی قیدی رہا ہوجائیں گے‘‘ میں بس یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا ’’یہ سیاسی غلطی ہوگی‘‘۔بی بی کو کبھی مکمل اقتدار نہیں ملا نہ ہی مدت پوری کرنے دی گئی اور جب یہ موقع آیا تو شہادت نصیب ہوئی ۔ یہ بات ہے 2018 ءکے الیکشن کی، عمران خان کی۔ عمران خان اب تیسرے آپشن کے طور پر سامنے آیا جبکہ قوی امکان یہی تھا کہ مسلم لیگ نون سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی تاہم تحریک انصاف 2013ءکے مقابلے میں زیادہ نشستیں جیت لے گئی اور کے پی میں پہلی بار کوئی جماعت دوسری بار مسلسل جیتنے کا ریکارڈ قائم کرلے گئی ۔ کراچی میں انتخابی مہم کے دوران خان صاحب سے ایک نشست ہوئی ، جان پہچان تو ان سے1989ءسے تھی وہ ہمیشہ کی طرح نتائج کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ پراعتماد تھے مگر پھر بھی مجھ سے پوچھا ’’مظہر تمہاراکیا خیال ہے‘‘ میں نے کہا ’’عمران 2013ءسے تحریک انصاف کا گراف اوپر جارہا ہے مگر ایک مشروط اقتدار نہ لینا ،یہ غلطی بے نظیر نے بھی کی تھی 1988ءمیں ۔ پھر کچھ ایسا ہی ہوا اور جن جماعتوں اور گروپس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی انہوں نے ہی 2022ء میں انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ دیا جب اقتدار میں لانے والا ناراض ہوجائے تو وہی کرتا ہے جو بے نظیر کیس میں ہوا۔ہماری سیاسی تاریخ میں کسی بھی طرح ایوب خان،یحییٰ خان ، جنرل ضیاء ،جنرل پرویزمشرف، جنرل باجوہ جو سب آرمی چیف تھے کے ’’سیاسی کردار‘‘ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس طرح جنرل حمید گل ، جنرل اسد درانی ، جنرل رحیم الدین ، جنرل پاشا،جنرل ظہیرالاسلام یا جنرل فیض اور کچھ دوسرے اہم کرداروں کے سیاسی رول پر بڑے سوالیہ نشان ہیں ۔بھٹو صاحب نے 1974ء میں نیشنل عوامی پارٹی اور اپوزیشن کو قابو کرنے کیلئے جس سیاسی سیل کا قیام آئی ایس آئی میں لائے وہ خود اس کا شکار ہوگئے ۔ اصغر خان کیس میں  ایئرمارشل اصغرخان نے جب ’’سیاسی سیل‘‘ پر سوال کیا تو جواب آنے میں کئی سال لگ گئے ۔ اصغر کان کیس ہو یا پانامہ پیپرز یہ سیاسی کرپشن کی بدترین مثالیں ہیں ۔

میاں نواز شریف ہماری سیاست کا اہم کردار رہے ہیں اقتدار بھی دیکھا اور اٹک جیل سے لانڈھی جیل میں بھی قید رہے۔ انکے کریڈٹ پر کئی اچھے فیصلے بھی ہیں مگر 2000ءمیں مشرف سے ڈیل کرکے باہر جانا اور 2020ءمیں عمران حکومت میں لندن جانے کے فیصلوں نے ان کو ناقابل تلافی سیاسی نقصان پہنچایا ۔تاہم 8فروری 2024 ءکو جو کچھ ہوا اس نے سیاست کو ایک نیا رخ دیا ہے ووٹر نے تمام دعوے غلط ثابت کردیئے، کیا ان 78برسوں میں کچھ ایسا ہوا کہ کسی جماعت کا نام ہی نہ ہو الیکشن کا نشان بھی نہ ہو قومی اور صوبائی کے ہر امیدوار کا الگ نشان ہو اور پھر بھی ووٹ اسکے امیدواروں ہی کو پڑے چاہے وہ نشان ٹرک ہو یا گاڑی کا ووٹر نے تو خیر ہمیشہ ووٹ کو عزت دی مگر، اس عزت کو سربازار ہمیشہ ہی رسوا کیا گیا ۔آپ 1970ءسے آج تک کے ہر الیکشن کو دیکھتے چلے جائیں آپ کو اندازہ ہوجائیگا۔

ان چار دہائیوں میں قومی اور صوبائی سطح پر مقبول ترین رہنماؤں کی فہرست نکالیں تو بھٹو کے بعد بےنظیر بھٹو ، نواز شریف اور عمران خان نظر آتے ہیں جنہیں مقبولیت کے باوجودعدم قبولیت کا سامنا کرنا پڑا یعنی مقبولیت ، قبولیت کی منظوری سے مشروط۔ مشروط جمہوریت کے اس سفر نے جمہوری اقدار ہی کو نہیں جمہوریت کو ہی ڈی ریل کردیا ہے ۔ احتساب کو بھی محض سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا ورنہ اگر صحیح معنوں میں احتساب ہوتا تو عین ممکن ہے شفافیت آجاتی مگر مقصد ہی جب سیاسی ہو تو سنگین جرم کرنے والے بھی بری ہوجاتے ہیں ۔

ویسے تو ملک ہمیشہ ہی نازک موڑ سے گزر رہاہوتامگر اس وقت قبولیت والی حکومت کو مقبولیت والی جماعت پر فوقیت دی گئی ہے ، حکومت کسی کی بھی ہو ۔ بہر حال وزیر اعظم شہباز شریف ہیں ۔ 1988 میں مقبول جماعت اور رہنما پی پی پی اور بے نظیر بھٹو کو مشروط اقتدار سے نوازا گیا ۔ 2024 میں ایک اور مقبول رہنما عمران خان جب قبولیت کھو بیٹھا تو دوسال سے زائد عرصہ سے جیل میں ہے ۔ اگر آج بھی خان صاحب یا میاں صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ قبولیت کے ساتھ جانے میں نجات ہے ،بات چیت صرف انہی سے کرنی ہے تو سو بسم اللہ مگر دوسرے کی وکٹ پر تو دوسرا ہی بہتر کھیل سکتا ہے ۔ ان چار دہائیوں میں سیاست کو ایک دلدل میں دھنستے دیکھا ہے جسے نکالے بغیر شاید ہم کبھی اصل پارلیمانی طرز سیاست کی طرف نا جائیں گے ۔ سیاسی جماعتیں ابھی جمہوریت سے بہت دور ہیں ۔

تازہ ترین