• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام میں غربت و افلاس اور معاشی بدحالی کا حل

ڈاکٹر محمد ریاض علیمی

دنیا کے معاشی و سماجی مسائل میں سب سے گہرا اور پیچیدہ مسئلہ غربت ہے، وہ ناسور جو صرف روٹی، کپڑے اور مکان کی کمی تک محدود نہیں، بلکہ انسانی وقار، مساوات اورسماجی عدل کے زوال کی علامت بن چکا ہے۔ غربت محض خالی پیٹ کا مسئلہ نہیں، بلکہ ان تمام محروم انسانوں کی داستان ہے جو ناانصافی، استحصال اور معاشی ناہمواری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جو جسم سے زیادہ روح کو زخمی کرتا ہے اور جس کے اثرات معاشرت کے ہر طبقے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

اسلام نے اس مسئلے کو محض معیشت کا نہیں، بلکہ انسان کی عزت اور انصاف کا مسئلہ قرار دیا۔ اس نے غربت کو محض قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول نہیں کیا اور نہ ہی دولت کو برائی قرار دیا، بلکہ ایک ایسا متوازن اور عادلانہ معاشی نظام پیش کیا جس میں انسان کو خوددار بنایا گیا، معاشرے کو باہم مربوط کیا گیا اور ریاست کو عدل و کفالت کا ضامن قرار دیا گیا۔

اسلام کی نظر میں اصل کامیابی نہ مال و دولت کا جمع ہونا ہے نہ فقر کا جواز بلکہ وہ توازن ہے جو دلوں میں قناعت، ہاتھوں میں جذبۂ محنت اور نظام میں عدل و مساوات پیدا کرتا ہے۔ یہی وہ اعتدال ہے جو اسلام کو دنیا کے تمام معاشی نظریات سے ممتاز بناتا ہے۔ اسلام نے غربت کو ایک ایسی آزمائش قرار دیا جو ایمان، اخلاق اور معاشرت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:''اے اللہ! میں کفر اور فقر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔''(سنن نسائی: 5467)

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غربت انسان کو بعض اوقات ایسے حالات میں لے جاتی ہے، جہاں وہ ایمان کی کمزوری، اخلاقی انحطاط اور جرائم کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا اسلام کا نقطۂ نظر یہ نہیں کہ غربت برداشت کی جائے، بلکہ یہ کہ اسے انصاف، عدل اور خیرات کے ذریعے ختم کیا جائے۔

اسلامی معاشی تعلیمات کی بنیاد تین اصولوں پر ہے: عدل، توازن اور تعاون۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا: 'بے شک، اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔(سورۃ النحل: 90) عدل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس کا حق ملے اور احسان یہ چاہتا ہے کہ ہر شخص اپنے حق سے بڑھ کر دوسروں کے لیے خیر کے دروازے کھولے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس کے ذریعے اسلام غربت کو محض ایک اقتصادی عیب نہیں، بلکہ اخلاقی و روحانی مرض سمجھتا ہے اور اس کے علاج کے لیے ''انفاق فی سبیل اللہ'' کا نظام دیتا ہے۔

اسلام میں دولت جمع کرنا برا نہیں ہے لیکن اسے روکے رکھنا اور گردش سے باہر کرنا برا ہے۔ قرآن کریم میں فرمان ہے: ''تاکہ یہ مال تمہارے مال داروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے۔''(سورۃ الحشر: 7) یہ آیت دراصل اسلامی معیشت کا منشور ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ دولت کا بہاؤ مسلسل جاری رہے، وہ نیچے تک پہنچے، معاشرے کے ہر طبقے کی ضروریات پوری کرے اور کسی ایک طبقے کی اجارہ داری نہ بنے۔

اسلام نے غربت کے خاتمے کے لیے زکوٰۃ کو ایک فرض عبادت کے طور پر متعین کیا۔ زکوٰۃ کوئی خیرات یا احسان نہیں، بلکہ غریب کا حق ہے۔ قرآنِ مجید نے اسے یوں واضح کیا: ''اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محروم کا حق مقرر ہے۔'' (سورۃ الذاریات: 19) زکوٰۃ کا مقصد محض مالی مدد نہیں ،بلکہ دولت کی تطہیر ہے۔ اس سے دولت پاک ہوتی، دل میں قناعت پیدا ہوتی اور معاشرے میں توازن قائم ہوتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اللہ نے مال داروں پر اتنا حق مقرر کیا ہے جو غریبوں کی کفایت کر دے۔''(المعجم الاوسط: 3579) اگر یہ نظام صحیح معنوں میں قائم ہو جائے تو دنیا سے بھوک اور محرومی مٹ سکتی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں یہی حقیقت عملاً ثابت ہوئی جب کوئی زکوٰۃ لینے والا باقی نہ رہا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ اسلامی نظام صرف نظریہ نہیں، بلکہ ایک قابلِ عمل حقیقت ہے۔

اسلام نے صرف ریاستی سطح پر غربت کا علاج نہیں کیا ،بلکہ انفرادی ضمیر کو بھی بیدار کیا۔ قرآن نے ''اطعامِ مسکین'' کو نیکی کے اعلیٰ درجے میں شمار کیا ہے:''وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔'' (سورۃ الدھر: 8) اس آیت سے یہ لطیف نکتہ واضح ہوتا ہے کہ غربت کے خاتمے کی اصل بنیاد محبت اور ایثار ہے، نہ کہ سیاسی نعرہ یا وقتی مہم۔ اسلام چاہتا ہے کہ معاشرے میں ہر دل دوسروں کے لیے نرم ہو، ہر دست کسی نہ کسی کے کام آئے اور ہر دولت خدمت کا ذریعہ بنے۔

اسلام نے معاشی انصاف کے ساتھ اخلاقی تطہیر کو بھی لازم قرار دیا۔ سود کو حرام کیا گیا، کیونکہ سودی نظام غربت کی جڑ ہے۔ سود دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر دیتا ہے، غریب کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیتا ہے اور معاشرے سے رحمت و برکت ختم کر دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: ''اللہ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔''(سورۃ البقرہ: 276) اسلام نے سودی نظام کے مقابلے میں تجارت، محنت اور انفاق پر مبنی معیشت قائم کی، تاکہ رزق میں برکت، محنت میں عزت اور دولت میں عدل قائم ہو۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔(سنن نسائی: 2535) اس فرمان سے اسلام کے معاشی عدل اور انسانی ہمدردی کی روح اُجاگر ہوتی ہے، اس کے مطابق ہر مومن کو اپنی محنت سے کمائی کرنی چاہیے، اگر وہ کسی وقت محتاج ہو جائے تو معاشرہ اس کی عزتِ نفس کو پامال کیے بغیر سہارا دے۔ اسلام کا تصورِ فلاح اسی وقار پر قائم ہے۔

اسلامی تاریخ میں ''بیت المال'' اس فکری نظام کا عملی مظہر تھا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے ادوار میں بیت المال سے یتیموں، بیواؤں، معذوروں اور مسافروں کی کفالت ہوتی تھی۔ اسلامی حکومت نے فلاحی ریاست کا جو تصور دیا، وہ محض زکوٰۃ تک محدود نہیں تھا بلکہ تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار تک پھیلا ہوا تھا۔

اگر آج مسلم دنیا اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے نظامِ معیشت کو ترتیب دے تو غربت کے خاتمے میں انقلاب آ سکتا ہے۔ زکوٰۃ کے ادارے اگر شفاف، منظم اور خود مختار بن جائیں، بیت المال کے اصول جدید تقاضوں کے مطابق زندہ کیے جائیں اور سودی نظام کی جگہ تجارت و تعاون پر مبنی معیشت اپنائی جائے تو نہ صرف غربت مٹ سکتی ہے، بلکہ امّتِ مسلمہ دنیا کے لیے ایک عملی نمونہ بن سکتی ہے۔

اسلام کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ دولت محض ملکیت نہیں بلکہ امانت ہے اور غربت محض نصیب نہیں بلکہ ایک آزمائش۔ محنت کو اسلام نے عبادت کا درجہ دیا اور انفاق کو نجات کا وسیلہ ٹھہرایا۔ دولت مند اگر اپنے مال میں عاجزی اور شکر پیدا کرے تو وہ اللہ کا محبوب ہے اور محتاج اگر صبر و قناعت کا پیکر بن جائے تو وہ قربِ الٰہی کا حق دار ہے۔ اسلام دراصل اسی توازن کا دین ہے جو نہ دولت کو گناہ سمجھتا ہے، نہ غربت کو مستحسن، بلکہ دونوں کو عدل و انصاف کے ترازو میں تولتا ہے۔

اگر انسانیت اسلام کے اس عدل و احسان پر مبنی معاشی نظام کو سمجھ لے تو زمین پر غربت باقی نہ رہے۔ یہی وہ نظام ہے جسے نبی رحمت ﷺ نے قائم کیا جس میں انسانوں کے درمیان محبت، تعاون اور عزت کا رشتہ تھا، نہ کہ استحصال اور حسد کا۔ درحقیقت، اسلام کا اصل پیغام یہ ہے کہ دنیا کو دولت کی نہیں، انصاف کی ضرورت ہے اور عدل ہی وہ چراغ ہے جو فقر کی تاریکی کو ہمیشہ کے لیے مٹاسکتا ہے۔

اقراء سے مزید