کیا آپکو عدالت سے انصاف کی کوئی اُمید ہے ؟ یہ سوال سُن کر میں تھوڑا سا مسکرایا ۔ سوال کرنیوالے نوجوان صحافی کے ہونٹوں پر بھی ایک زہریلی مسکراہٹ نظر آ رہی تھی ۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ انصاف کی کوئی امید نہیں لیکن اُسے میرے الفاظ کی ضرورت تھی کیونکہ عدالت میں درخواست گزار بنکر تو میں ہی آیا تھا ۔ میں نے جب اپنی درخواست پر دستخط کئے تو اپنے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق سے کہا تھا کہ انصاف کی کوئی امید نہیں لیکن اتمام حجت ضروری ہے۔ ہم دن رات آئین و قانون کی بالادستی کے دعوے کرتے ہیں لہٰذا ہمیں انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹا دینا چاہئے تا کہ کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ جب آپکو گولیاں ماری گئیں تو ارشد شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے پوچھا تھا کہ حامد میر پر قاتلانہ حملے کی انکوائری کیلئے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے؟ جب ارشد شریف کو کینیا میں قتل کر دیا گیا تو حامد میر نے اس کے قتل کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیوں نہ کیا؟ یہ اگست 2025 ء کا اختتام تھا اور میں نے ارشد شریف کے قتل کی انکوائری کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈیڑھ سال قبل درخواست دائر کی تھی جس پر 27 اگست 2024 ء کو فیصلہ محفوظ کیا گیا ۔ اس دوران ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق بھی اس کیس میں فریق بن چکی تھیں ۔ ایک سال گزر جانے کے بعد 25 اگست 2025 ء کو ایک ایسا فیصلہ سنانے کیلئے ہمیں عدالت نے بلایا جس فیصلے کا سب کو پہلے سے پتہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ارشد شریف کے قتل کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم نہیں دینا۔ جوڈیشل کمیشن بنانے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہوتا ہے اور ہم نے درخواست کی تھی کہ عدالت وفاقی حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دے۔قبل ازیں ہم وفاقی حکومت سے بھی بار بار مطالبہ کر چکے تھے کہ ارشد شریف کو 23 اکتوبر 2022 ء کو کینیا میں قتل کیا گیا ۔ کینیا کی عدالت میں جویریہ صدیق کی درخواست پر کئی سماعتوں کے بعد جو فیصلہ آیا اُس میں واضح طور پر ارشد شریف کے قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا گیا ۔ ہم نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ کینیا کی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں ایک جوڈیشل کمیشن بنا کر اس قتل کے ماسٹر مائنڈ کو تلاش کیا جائے جس نے پہلے ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا اور جب ارشد شریف نے اکتوبر 2022 میں پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا تو انہیں کینیا میں قتل کروا دیا گیا ۔ ہمارے مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا لہٰذا ہم عدالت جانے پر مجبور ہوئے۔ عدالت نے ایک سال تک اپنا فیصلہ محفوظ رکھا اور پھر ہماری درخواست مسترد کردی ۔ارشد شریف کے قاتل مزید محفوظ ہو گئے ۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر ہماری درخواست مسترد کی کہ یہ معاملہ تو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ ہم نے بار بار اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2022 میں ایک از خود نوٹس ضرور لیا تھا لیکن ایک سماعت کے بعد بات آگے نہ بڑھی ۔ ا سوقت عمر عطا بندیال چیف جسٹس تھے ۔ اُن کے بعد قاضی فائز عیسی چیف جسٹس بنے ۔ انہوں نے کوئی سماعت نہ کی ۔ پھر یحییٰ آفریدی آگئے ۔ وہ بھی خاموش رہے ۔ سپریم کورٹ قتل کے مقدمے کا ٹرائل نہیں کر سکتی ۔ اس لئے ہم نے بھی کسی کو ملزم نامزد کئے بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا تا کہ جو بھی قتل کا ذمہ دار تھا اُسے بے نقاب کیا جا سکے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک سالہ محفوظ فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ سے رابطہ کریں ۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کسی سے ڈھکے چھےنہیں ۔ وہ کسی کو کیا انصاف دے سکتے ہیں ؟ ارشد شریف کے قتل کو تین سال مکمل ہو چکے ۔ مرحوم کی والدہ نے جن افراد کو ملزم نامزد کیا تھا اُن پر تو مقدمہ درج نہیں ہو سکا ۔ سپریم کورٹ کا از خود نوٹس بھی آگے نہ بڑھا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انکوائری کمیشن بنانے کی ہماری درخواست مسترد کردی ۔ کیا اس کے بعد بھی کسی صحافی کو عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید رکھنی چاہئے ؟ مجھ پر 19 اپریل 2014 ء کو کراچی میں حملہ ہوا ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن بنا جس نے تین ہفتے میں رپورٹ دینی تھی۔گیارہ سال گزر گئے۔ اُس کمیشن کی رپورٹ نہیں آئی ۔ نہ مجھے انصاف ملا اور نہ ہی میں ارشد شریف کو انصاف دلوا سکا ۔ نوجوان صحافی مجھے پوچھتے ہیں کہ جس ملک میں آپکو انصاف نہ ملا اور جہاں ارشد شریف کو انصاف نہ ملے وہاں صحافت کا کیا مستقبل ہے ؟ یہ سوال سُن کر میری نظروں کے سامنے حیات اللہ خان، موسیٰ خان خیل اور سلیم شہزاد سمیت بہت سے صحافیوں کے چہرے گھوم جاتے ہیں جو اغواء کر کے قتل کئے گئے ۔ ان سب کے قتل کی انکوائری ہوئی ۔سلیم شہزاد کے کیس میں تو ہم نے جسٹس ثاقب نثار کے سامنے کچھ ملزمان کے نام بھی لئے لیکن انصاف نہ ملا۔ ارشد شریف کو تو 23 مارچ 2019 ءکو ریاست پاکستان نے پرائڈ آف پرفارمینس کا صدارتی ایوارڈ بھی دیا ۔ یہ صدارتی ایوارڈ یافتہ صحافی 10 اگست 2022 ء کو جب پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوا تو اس پر 16 جھوٹے مقدمات قائم تھے ۔ اگر یہ پتہ چل جائے کہ یہ جھوٹے مقدمات کس کے حکم پر درج ہوئے تو قاتلوں کا سراغ لگانا کوئی مشکل نہیں لیکن جن صاحبان اختیار کے حکم پر صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج ہوتے ہیں وہ صرف اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہیں ۔ اُن کی نوکری دوسروں کو جھوٹا اور غدار قرار دینے پر چلتی ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جس ملک میں ارشد جیسےصدارتی ایوارڈ یافتہ صحافی کو انصاف نہ ملے اُس ملک کا وزیر اعظم اور ڈونلڈ ٹرمپ جتنی بھی تصویروں میں ایک ساتھ مسکراتے نظر آئیں پاکستان کے نوجوانوں میں مایوسی کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ آج نوجوانوں کی اکثریت کو نہ تو عدالتوں پر اعتماد ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ پر ،میڈیا کی ساکھ بھی تباہ ہو چکی ہے۔ ارشد شریف کے قتل کے بعد پچھلے تین سال میں مزید 16 صحافی قتل ہو چکےہیں - 2024 ء میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 152 ویں نمبر پر تھا ۔ 2025 ء میں پاکستان چھ درجے گر کر 158 ویں نمبر پر آگیا ہے ۔ اس تنزلی کی وجہ پیکا ترمیمی ایکٹ ہے۔اس سیاہ قانون کو پاکستان کے اندر اور باہر صحافیوں کی تمام قومی و بین الاقوامی تنظیموں نے مسترد کر دیا ہے ۔ آج پاکستان کی حکومت بار بار کہتی ہے کہ مئی 2025 ء کی پاک بھارت جنگ نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کا میڈیا بھارتی میڈیا سے زیادہ ذمہ دار ہے ۔ ایک طرف حکومت پاکستانی میڈیا کو ذمہ دار قرار دیتی ہے دوسری طرف اس حکومت کو میڈیا کی آواز دبانے کیلئے پیکا قانون کی ضرورت پڑ جاتی ہے ۔ ایک طرف صحافیوں کو معرکہ حق میں سچ بولنے پر تمغے دیےجاتے ہیں دوسری طرف وہ صحافی ارشد شریف کے چار بچوں کی آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملا سکتے کیونکہ ان بچوں کے باپ کے قاتل قانون پر مسلسل حاوی ہیں ۔ پاکستان کو ایک عظیم ملک بنانے کیلئےیہاں آئین وقانون کی بالادستی قائم کرنا ہو گی ۔ جب تک پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیاکی ساکھ بحال نہیں ہوتی کوئی ایک ادارہ یا ایک وفاقی حکومت پاکستان کو عظیم نہیں بنا سکتی ۔ نوجوانوں میں مایوسی ختم نہیں کرسکتی۔ ارشد شریف کو انصاف دیکر یہ ریاست نوجوانوں کی نظروں میں تھوڑی سی عزت تو حاصل کرسکتی تھی لیکن ریاستی ترجیح شہریوں کو مطمئن کرنا نہیں صرف انکو قابو میں رکھنا ہے۔ ایسی ریاست میں مجھ جیسے لوگ ارشد شریف کی تیسری برسی پر اسے صرف سوری کہہ سکتے ہیں۔