• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو لوگ امید پرست ہیں وہ جنگوں،سیلابوں، طوفانوں یا قحط کے باوجود سفاک ترین مرد جسے جوئے،نشے یا گداگری نے حیوان بنا دیا ہو اسے ہوش میں لانے کیلئے عورت سے موثر وسیلہ کسی اور کو خیال نہیں کرتے ۔یہاں اپنی یا بیگانی عورت کا سوال نہیں اس میں ترغیب کی جو قوت ہے اس سے تو قصہ آدم کو رنگیں کرنے والا ابلیس بھی گھبراتا ہے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا مصوروں نےتصویریں بنائیں،قصہ لکھنے والوں نے قصے لکھے،کہے،نا ٹک بنائے اور تو اور مذہبی لوگوں نے ڈرایا بھی بہت ۔پھر یہی عورت ہے جواپنی نسائی ترغیب کو مامتا میں ڈھالتی ہے بچے کو جنم دیتی ہے اسے لوریاں سناتی ہےاپنی بانہوں کے پنگوڑے میں گویا انسانیت کو سنبھال سکنے والے بچے کیلئے دنیا بھر کی غنائیت اورمٹھاس ماں کی آواز میں جمع ہو جاتی ہے پھر کوئی اس ماں پر گالیوں اورطلاق،طلاق طلاق کی دھمکیوں کے کوڑے برسا رہا ہو تو اس کی کراہ اور درد بھی اس کی لوریوں میں شامل ہو جاتا ہے بعض لڑکیاں درد کی یہ دولت جہیز میں لے آتی ہیں جہاں انہوں نے اپنی ماں کو بھی کرلاتے سنا تھا ۔آخر کوئی وجہ تو ہو گی جب ہماری صوفیانہ شاعری میں اکتارہ یہی راگ، بار بار سناتا ہے کہ عشق کرنا اور اس کے لئے خود کو نچھاور کرنا صرف عورت کے بس میں ہے ۔ اسی لئے ماں کے سراپے میں نانی بھی شامل ہو جاتی ہے۔ بچے کو بہت بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جب نانی ماں جھوٹ موٹ اس کی ماں کو ڈانٹتی تھی یا فرضی تھپڑ تک لگا دیتی تھی کہ اس نے اس پیاری بچی یا بچے کو ڈانٹا کیوں؟ اگر نانی کی عدالت میں اپنی ماں کے خلاف کوئی مقدمہ لے کر گئے ہیں اور وہاں سے کوئی فیصلہ لے کر آپ قلقاریاں مارتے آئے ہیں توآپ ان تمام محاوروں اور ضرب الامثال کی بنیاد کو سمجھ سکتے ہیں جن پر کبھی صدف مرزا لکھتی ہیں اور کبھی رئوف پاریکھ۔ میں پرائمری اسکول میں تھا کلاس مانیٹر تھا یعنی ماسٹر صاحب کا چمچہ،اس لئے تب میری زندگی کا سب سےڈرائونا دن تھا ،اسکول کی گھنٹی بج گئی تھی مگر چھ کلاس فیلو غیر حاضر تھے۔پھر باری باری انہوں نے آنا شروع کیا شاید سبھی کی نانی اماں بیمار ہو گئی تھیں ماسٹر مشکور صاحب گردیزی تھے ایک آنکھ میں پھولا تھا ہم سب سے کہا میں دعا مانگتا ہوں اسے دہرائیں اور ساتھ ہی کہیں آمین ! ہم سب اس دعا کے دوران بھی زاروقطار روئے اور بعد میں بھی۔ جبری دعا یہ تھی’’ اے باری تعالیٰ میری نانی کو اپنے پاس بلالے کہ یہ مجھے اسکول سے دیر کراتی ہیں‘‘کئی برسوں کے بعد جب میری نانی کو کینسر ہوا تو میں رو رو کے نانی کو بتایا کرتا تھا کلاس کی اس دعا کے بارے میں۔ میری نانی بہت صبر اورحوصلے والی تھیں وہ کہتی تھیں کہ اگر اسکول کے بچوں کی دعائوں میں اثر ہوتا تو پہلے سارے ماسٹر اور ماسٹرنیاں ہلاک ہوتے۔ حیرت انگیز طور پر جب میں گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں لیکچرار ہوا تو جناح روڈ پر واقع سنڈیمان لائبریری میں گیا مجھے میرے ایک استاد خلیل صدیقی صاحب نے بتایا کہ وہ ذرا کھسکے ہوئے ہیں ان کی گفتگو سے گھبرا نہ جانا۔ان کی سابقہ خدمات اور ان کے بچوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے انہیں ملازمت سے سبک دوش نہیں کیا جا رہا۔ میں نے وہاں جا کر ایک دو کتابوں کے بارے میں پوچھا انہوں نے رہنمائی کی میں نے اس الماری سے وہ کتابیں نکال کر پڑھنی شروع کیں اور شاید نوٹس بھی لینے لگا پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے یہاں جو آتے ہیں وہ مجھے نیم پاگل خیال کرتے ہیں میرے سامنے لائبریری کی ایک دو کتابیں اپنے کوٹ میں ڈالتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں،آپ چاہیں تو یہ کام کر سکتے ہیں میری طرف سے اجازت ہے۔ پھر کہنے لگے آپ کو کچھ فلکیات سے بھی دلچسپی ہے؟ میری ہاں ہوں کے جواب میں کہا کچھ نئے ستارے طلوع ہو رہے ہیں فسادی قسم کے کوئی پچاس برس وہ خوب فساد پھیلائیں گے کہ لوگ آہ و زاری کریں گے مناجاتیں کریں گے پھر یک لخت حالات پلٹا کھائیں گے۔ پھر اک دم سے کہا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں؟ میں نے کہا کہ ابھی میری شادی کا ستارہ طلوع نہیں ہوا کہنے لگے میری ایک بات یاد رکھیں یہ تیسری چوتھی الماری میں بچوں کیلئے کہانیاں ہیں لوریاں ہیں کارٹون اور کامکس ہیں انگریزی، اردو، بلوچی، براہوی اور پشتو میں ان سب میں ایک بات کامن ہے انہیں بچوں کی نانیوں نے لکھا ہے میں نے انتظار حسین کے حوالے سے کہا کہ وہ بھی کہتے ہیں کہ کہانی سنانے کا فن تو نانی اماں کو آتا ہے ۔اک دم سے ان کا لہجہ بدل گیا کہنے لگے صاحب یہ ملتان کوئٹہ کی بات نہیں میرا نقطہ نظر ہے کہ اگر دنیا بھر سے نانیوں کو چن چن کے ہلاک کر دیا جائے تو یہ دنیا کچھ سنبھل جائے گی وگرنہ بچے منہ زور ہوتے جائیں گے انہی کی شہ پر اور جب یہ بگڑ جائیں گے تو پھر ساری کتابیں،کتاب خانے کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔مجھے ان کا نام بھول گیا ہے مگر ممکن ہے کہ سنگت کے ڈاکٹر شاہ محمد مری کو یاد ہو یا ڈاکٹر فیصل ریحان کو،یا عابد میر کو یا قاضی کو۔کیونکہ کل سے امریکی صدر کے بعد نیویارک ٹائمز کی ایک خبر نے دھوم مچارکھی ہے کہ پاکستان میں اربوں ڈالر مالیت کی معدنیات کا ذخیرہ ہے اس کے بعد پاکستان سکھی ہوگا یا زرگروں کی یلغار سے دکھی؟

٭٭٭

غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں بین الصوبائی مذاکرے ایک ثقافتی میلے کے طور پر ہو رہے ہیں داجل سے تعلق رکھنے والی ہماری ایک شاگرد اس کا اہتمام کر رہی ہے،اس میں کچھ کہنے کیلئے میں کچھ کتابوں کی ورق گردانی کر رہا تھا،مہر عبدالحق کی ایک کتاب ہے ’’سرائیکی لوک گیت‘‘جسے بزم ثقافت ملتان نے1964میں شائع کیا تھا اس میں ایک سرائیکی لوری حضرت آمنہ کے لال کیلئے بھی ہے دو مصرعے اس کے بھی سن لیجئے:

اٹھی جاگ محمداﷺ تیڈا نام نبی

سچا خالق جاگدا توں وی جاگ سہی

اٹھی جاگ محمداﷺ،اے منبر محراب

چن ،سِجھ کھلوتے جاگدے تارے کوں نہ خواب

تازہ ترین