• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملا محمد عمر ؒ نے تحریکِ طالبان پاکستان پر واضح کیا تھا کہ پاکستان ہمارا بڑا بھائی ہے اور پاکستان پر حملہ افغانستان پر حملہ تصور ہوگا۔ ٹی ٹی پی خود کو تحریکِ طالبان افغانستان کی نظریاتی وارث سمجھتی ہے جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں بکھرے ہوئے جنگجوؤں کا اتحاد تھا۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد پاکستانی ریاست کا تختہ الٹ کر اپنی تشریح کے مطابق شریعت کا نفاذ کرنا تھا۔اس لیے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، سیاست دانوں و افواج ِپاکستان کا قتلِ عام کرنا اور معصوم شہریوں کو بے دریغ دہشت گردانہ واقعیات میں مارنے کو وہ جائز قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں ملا محمد عمر ؒکا یہ فرمان تحریک ِطالبان افغانستان اور تحریکِ طالبان پاکستان سمیت سارے افغانستان کے لیے پتھر پر لکیر کے مترادف تھا۔ آج وہی افغان طالبان جو خود کو ملا محمد عمر ؒ کی بنائی ہوئی امارتِ اسلامی افغانستان کے وارث و جانشین کہتے ہیں اور وہی ٹی ٹی پی جو افغان طالبان سے مل کر شانہ بہ شانہ امریکہ کے خلاف جہاد لڑتی رہی کیسے یکسر ملا عمر ؒکے اس واضح، بِنا لگے لپٹے بیان کو فراموش کر رہے ہیں؟کیا یہ اپنے پہلے امیر المومنین کی سوچ سے بغاوت تو نہیں؟ ملا محمد یعقوب جو امارتِ اسلامی افغانستان کے وزیر دفاع ہیں نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ میرے والد (ملا محمد عمرؒ) نے پاکستان کے متعلق یہی بات کہی تھی تو میں اس سے کیسے رو گردانی کر سکتا ہوں؟ ملا ہبت اللہ نے ملا عمر کے بیان کی توثیق تو کی لیکن افسوس کہ ساتھ ہی افغان فورسز کو پاکستان کی سرحد پر بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک بھیجنے کا فرمان بھی جاری کر دیا۔ ادھر ملا یعقوب کے حالیہ بیانات عملاً اپنے والدِ محترم کے فرمودات سے یکسر متضاد ہیں۔ کیا ان پاکستان دشمن اقدامات، ٹی ٹی پی کی سرپرستی اور پاکستان کے ازلی دشمن ہندوستان سے محبت کی پینگیں بڑھانا ملا عمر ؒکے نظریات سے بغاوت نہیں یا اب ملا عمر ؒکے نام پر کیے گئے جہاد کی پاک صاف چادر کو عارضی و سطحی مفادات کی خاطر میلا کیا جا رہا ہے؟

ادھر ہندوستانی وزیراعظم تو جیسے سفارتی حجاب کے پیچھے چھپ کر بیٹھے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی بطور "وشو گرو" یعنی دنیا کے روحانی استاد کا تاثر قائم کرنے کے لئے تشہیر پر کروڑوں ڈالر لگائے گئے جو ڈوب گئے۔ ہندوستانی جو پہلے "موذی" کی روحانیت پر کسی قدر پراپیگنڈے کے باعث مائل ہو ئےتھے اب اس سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔ رام مندر کے مکمل ہونےپر مذہبی عقیدے کے برعکس ہندو پنڈت کے بجائے" موذی" نے خود افتتاح کیا جبکہ گودی میڈیا انہیں "وشو گرو" کہہ کر اسے جائز قرار دیتا رہا۔ اب بھی تمام بڑی مذہبی تقریبات میں اس کا قد بطور روحانی پیشوا سب سے اونچا کیا جا رہا تھا جسکا تاثر صدر ٹرمپ کے چند جملوں سے ہی ڈھیر ہو گیا۔صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کافی تھاکہ انہوں نے پاکستان اور ہندوستان کے بیچ ممکنہ جوہری جنگ ہندوستانی درخواست پر رکوائی کیونکہ پاکستان نے ہندوستان کے 7 عدد لڑاکا طیارے مار گرائے تھے۔ ہر بین الاقوامی اجلاس جس میں صدر ٹرمپ یا پاکستانی وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی شرکت متوقع ہو "موذی" کےسفارتی حجاب کی آڑ میں وزیر خارجہ جے شنکر کو خانہ پُری کے لیے بھیج دیاجاتا ہے۔جی سیون کینیڈا کے اجلاس سے واپسی پر صدر ٹرمپ نے وزیراعظم ہندوستان کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی لیکن "موذی" کو علم تھا کہ صدر ٹرمپ فیلڈ مارشل عاصم منیر سے اس کی ملاقات میں حل طلب معاملات طے کرانا چاہتے ہیں لہٰذا بہانہ بنا کر واپس ہندوستان کا راستہ لیا۔ ستمبر میں برکس تنظیم کے ورچوئل سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کی مبادا صدر ٹرمپ خفا نہ ہو جائیں۔ بعینی شرم الشیخ میں قابض اسرائیل اور حماس کے درمیان تاریخی اہمیت کے حامل جنگ بندی معاہدے کی تقریب میں جہاں دنیا کے تقریباً تمام لیڈر ان موجود تھے، دعوت کے باوجود "موذی"جان بوجھ کر شامل نہ ہوا کیونکہ صدر ٹرمپ آ رہے تھے۔ اسی طرح آسیان ممالک کے ملیشیا میں ہونے والے26 اکتوبر کے اجلاس میں کنفرم کرنے کے باوجود آخری موقع پر"دیوالی" کی مذہبی رسومات کا بہانہ تراش کر کے آن لائن شرکت کا کہا جبکہ دیوالی تو ختم ہو چکی ہے۔ آسیان کے دو رکن ممالک تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں جنگ بندی معاہدہ کروانے کے لیے خصوصی طور پر صدر ٹرمپ اس میں شرکت کررہے ہیں ۔"موذی" کے اس ناعاقبت اندیشانہ رویے اور ضد سے نہ صرف ہندوستان کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اپوزیشن جماعت کا نگریس نے سخت تنقید کی ہے کہ موذی کی ناکام سفارتی پالیسیوں نے ہندوستان کو عالمی سطح پر رسوا کر دیا ہے اور وہ صدر ٹرمپ کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ صرف امریکہ کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف لگنے پر ہندوستان کو 60 سے 70 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑے گا جبکہ ہندوستانی تارکینِ وطن پر امریکی ویزے کی شرائط میں سختی اور اضافی فیس سے بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کی ہندوستان سے روسی تیل کی خریداری پر ناراضی پر وزیراعظم ہندوستان نے پہلے تو بہت اکڑ دکھائی لیکن امریکہ کی جانب سے باہمی تجارتی تعلقات میں روز بروز بگڑتے معاملات کے باعث آخر گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اب "موذی" نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ دسمبر کے آخر تک روس سے کیے گئے معاہدے ختم ہونے پر اس سے مزید تیل کی خریداری نہیں کرے گا ۔ اگلے سال برکس سمٹ کا میزبان ہندوستان ہوگا لیکن "موذی" کے اس منافقانہ اقدامات سے اس سمٹ کا بھی مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے ۔


وزیراعظم ہندوستان کا یوں اچانک حجابی ہو جانا کسی اور جانب اشارہ کرتا ہے۔ وہ صدر ٹرمپ کا سامنا کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ پاکستان ہندوستان کی جنگ کرنے کی آشیر باد لیتے ہوئے انہوں نے امریکہ کو کچھ ایسی یقین دہانیاں کرائی تھیں جنہیں وہ پورا کرنے میں ناکام رہے جبکہ جنگ بندی کرانے پر کچھ ایسی شرائط پاکستان کے حوالے سے مانیں گئیں تھیں جن پر وہ بی جے پی،آر ایس، ایس اور اندرونی دباؤ کے باعث عمل کرنے سے گریزاں ہیں جیسے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی ثالثی،سندھ طاس  معاہدے کی بحالی اور دیگر تعطل کا شکار باہمی مسائل۔ صدر ٹرمپ ایک پکے بزنس مین ہیں اور اپنے ترپ کے پتے سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔پاکستان پر مئی میں حملہ کرنا ہندوستان ،موذی اور بی جے پی کے لئے برا شگون ثابت ہوا لیکن پاکستان پر دوسرا حملہ "موذی" اور بی جے پی کے لیے جان لیوا ثابت ہوگا۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے "موذی" کو تنبیہ کی ہے کہ پاکستان سے جنگ نہیں کرنا ۔ اسکے باوجود اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے"موذی " پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے تلا ہوا ہے۔ ایسے میں صدر ٹرمپ کو دھوکہ دینا ہندوستان کے گلے میں پھندا ڈالنے کے  مترادف ہوگا۔

زہر اب ہے اُس قوم کے حق میں مئے افرنگ

جس قوم کے بچّے نہیں خودار و ہنر مند

تازہ ترین