آج کی دنیا میں معاشی ترقی کی بنیاد علم اور ٹیکنالوجی پر منحصر ہے ۔ آج کی علم پر مبنی معیشت میں کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ جدید علوم بالخصوص سائنسی اور تکنیکی علوم تک کس حد تک رسائی حاصل کرتی ہے، اسے اپنے مقامی تقاضوں کے مطابق کتنا ڈھالتی ہے اور پھر اس میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کتنی جدت پیدا کرتی ہے تاکہ صنعتی تنوع، قدر میں اضافے اور مسابقت کو فروغ دیا جا سکے۔تحقیق و ترقی (Research & Development – R&D) میں سرمایہ کاری اس پورے عمل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری صرف نئی دریافتوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا بھر سے حاصل شدہ علوم کو اپنانے، مقامی حالات کے مطابق ڈھالنے،اور پھر پھیلانےکیلئے بھی ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق و ترقی پر اخراجات کا براہِ راست تعلق قومی جدت طرازی ، مسابقت اور معاشی ترقی سے منسلک ہے ۔سرکاری تحقیق و ترقی فنڈنگ جامعات میں بنیادی اور اطلاقی تحقیق کو آگے بڑھانے، تدریس کے معیار کو بہتر کرنے اور ڈیجیٹل ڈھانچےکی تیاری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دوسری جانب کاروباری اداروں کے تحقیق و ترقی اخراجات ٹیکنالوجی کی تبدیلی کیلئے ضروری صلاحیتوں کو بڑھانے میں اہم ہیں۔ دنیا بھر میں نجی کاروباری اداروں کےتحقیق و ترقی اخراجات سرکاری سرمایہ کاری کے مقابلے میں تیزی سے بڑھے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2012 ءمیں دنیا بھر کا اندازہ شدہ تحقیق و ترقی کا خرچ 2.75 کھرب ڈالر تھا جس میں 75فیصدکمپنیوں اور 25فیصد حکومتی حصہ ہے۔ جبکہ پاکستان میں نجی شعبے کا تحقیق و ترقی کا خرچ تقریباً صفر ہے۔یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے اور جب تک اس کو درست نہیں کیا جاتا پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکتا ۔ پاکستان تحقیق و ترقی پر اپنی مجموعی قومی پیداوار کا صرف0.16فیصد خرچ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے میں تحقیق و ترقی تقریبا ً نہ ہونے کے برابر ہے، اور بیشتر عوامی فنڈز کا تقریباً 60 فیصد دفاعی تحقیق پر خرچ کر دیا جاتا ہے ۔اس طرح جامعات اور قومی تحقیقی اداروں کے پاس وسائل نہایت محدود ہوتے ہیں، اور سب سے اہم پہلویعنی تحقیق کوتجارتی مصنوعات کی تیاری اور ارتقائی مراحل میں ڈھالنے کیلئے سرمائے کی دستیابی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں نجی شعبوں کو تحقیق و ترقی کےفروغ کیلئے ترغیبات دیتی ہیں، جیسے ٹیکس میں چھوٹ ، ٹیکس قرض و ادھار(Tax Credits) اور جدت طرازی معاونت لیکن پاکستان میں ایسی کوئی پالیسی موجود نہیں۔ صنعت اور جامعات کے درمیان تحقیقی تعاون نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی پارکس ، انکیوبیٹرز اور رابطہ جاتی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مزید یہ کہ امریکہ کے Bayh-Dole Actجیسا کوئی قانون بھی نہیں جو عوامی سرمائےسے کی جانیوالی تحقیق کے دانشورانہ حقوق کا تحفظ کرے۔
بین الاقوامی ادارے آج ترقی پذیر ممالک میں اپنے تحقیقی مراکز قائم کر رہے ہیں تاکہ کم لاگت پر اعلیٰ افرادی قوت حاصل کر سکیں۔ بھارت اور چین اس موقع سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ لیکن پاکستان نہ تو ٹیکنالوجی کی منتقلی کو فروغ دے سکا ہے اور نہ ہی TNCs کو یہاں تحقیقاتی مراکز قائم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک پاکستانی ماہرین کی صلاحیتیں بھی اب تک بروئے کار نہیں لائی گئیں، جنہوں نے تائیوان کے کمپیوٹر کے شعبے اور بھارت کے IT شعبے کی ترقی میں بڑا کردار ادا کیا، پاکستان اس معاملے میں بھی غیر فعال ہے۔
چین نے 1970 ءکی دہائی کے اوائل میں تحقیق و ترقی کے شعبوں میں ہمہ گیر اصلاحات کیں، جن میں سرمایہ داری نظام کی ازسرِنو ترتیب، تحقیق کے نظم و نسق میں بہتری اور صنعت و تحقیق کے درمیان گہرے روابط شامل تھے۔ ٹیکنالوجی مارکیٹیں، صنعتی جھرمٹ اور انکیوبیٹرز قائم کیے گئے تاکہ تحقیق براہِ راست صنعت تک پہنچ سکے۔ اداروں کیلئے عوامی سرمایہ داری کم کر دی گئی، تا کہ وہ متبادل سرمایہ معاہداتی تحقیق یا مشاورتی خدمات کے ذریعے حاصل کریں ۔اسکے علاوہ اطلاقی تحقیق کو فروغ دینے کیلئےترغیبات متعارف کروائی گئیں، جیسے ٹیکنالوجیوں کا لائسنس دینا ، آن-سائٹ مینوفیکچرنگ قائم کرنا، یا ٹیکنالوجی پر مبنی نئے کاروبار شروع کرنا۔چین نے تحقیق و ترقی R&D کےنظم و نسق کو فروغ دینے کی کوششوں میں فیصلہ سازی کو غیر مرکزی قرار دیتے ہوئے، کارکردگی پر مبنی پیمانے کواپنایا، جس سے بین الادارتی مسابقت اور سرگرمیوں میں تنوع کو فروغ حاصل ہوسکے۔ دیگر مشرقی ایشیائی ممالک مثلاً جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور اور تائیوان نے بھی مسابقتی برتری (Competitive advantage) حاصل کرنے کیلئے اپنی خصوصی حکمت عملی صنعتوں میں سرمایہ کاری پر کاروباری تحقیق و ترقی R&D میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی ۔ جاپان کی جنگِ عظیم دوم کے بعد کی معاشی ترقی اسی حکمتِ عملی پر مبنی تھی، جس میں نجی اداروں کی ٹیکنالوجی صلاحیت بڑھانے کے لیے عوامی تحقیق و ترقی R&D کےاداروں کا استعمال کیا گیا۔ اس سے نجی تحقیق و ترقی R&D میں نمایاں اضافہ ہوا اور سرمایہ کاری کلیدی عوامی ٹیکنالوجیوں پر مرکوز کی گئی۔
جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور نے "Learning strategies" تربیتی حکمت عملیاں اپنائیں تاکہ جدت کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ان حکومتوں نے مقامی اداروں کو ترغیب دی کہ وہ غیر ملکی ٹیکنالوجی کو معاہدوں کے تحت لائسنس کریں۔ اس طریقے سے مقامی اداروں نے سامان کے انتخاب، تربیت، پیداوار اور مینجمنٹ میں مدد حاصل کی، اور پھر ڈیزائن و انجینئرنگ کی آزادانہ صلاحیتیں پیدا کیں۔زیادہ تر ترقی یافتہ اور مشرقی ایشیائی ممالک میں صنعتی اور سماجی ترقی ایک طویل مدتی بصارت (Long-term vision) کے تحت چلائی جاتی ہے، جسے نچلی سطح کی تحقیق سہارا دیتی ہے تاکہ اہم ضروریات اور ترقی کے مواقع کی نشاندہی ہو سکے۔ مربوط معاشی بصارت کیلئے پرعزم قیادت ، میرٹ پر مبنی افسر شاہی، اور مساوی ترقی پر زور لازمی ہے۔ کامیاب عمل درآمد کیلئے وفاقی اور علاقائی وزارتوں کے درمیان ہموار تعاون درکار ہے۔صنعتی پالیسی کو تحفظ پسندی کے بجائے مقابلےپر زور دینا چاہیے، ٹیکنالوجی پر مبنی کاروبارکو فروغ دینا چاہیےاور انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینی چاہیے۔پاکستان کیلئے بھی ایسا ہی جامع اور مستقبل بینی پر مبنی طریقہ اپنانا نہایت اہم ہے۔ پالیسیا ں ایسی ترتیب دی جائیں کہ وہ نجی تحقیق و ترقی R&D کو ترغیب دیں، صنعت اور اکیڈمیا کے روابط کو فروغ دیں، اور کمپنیوں میں سیکھنے اور جدت کی ثقافت پیدا کریں۔ عوامی و نجی شراکت داری کو مضبوط کرنا، غیر ملکی پاکستانیوں کےنیٹ ورکس کو استعمال کرنا، اور بین الاقوامی تعاون کو اپنانا پاکستان کی مدد کر سکتا ہے تاکہ وہ ایک علم پر مبنی معیشت میں تبدیل ہو سکے جو پائیدار ترقی اور عالمی مسابقت کے قابل ہو۔
پاکستان ایک ایسا ملک بن سکتا ہے جو عالمی سطح پر جدت اور معاشی ترقی میں رہنما ہو، لیکن اس کیلئےپربصیرت، ٹیکنالوجی میں ماہر اور ایماندار قیادت وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔