• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہ عبداللطیف بھٹائی برصغیر کی صوفیانہ روایت کا وہ روشن مینار ہیں جن کی فکر اور شاعری نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے خطے کے روحانی اور سیاسی شعور پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ محض ایک شاعر یا صوفی نہیں بلکہ ایک فکری انقلابی تھے جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے انسانی برابری، سماجی انصاف، محبت، قربانی اور سچائی کے وہ اصول پیش کیے جو آج بھی سیاسی نظاموں کیلئے رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔ اگرچہ بھٹائی کی زندگی اور کلام بنیادی طور پر سندھ سے جڑے ہیں، مگر ان کی فکر نے پنجاب سمیت پورے برصغیر کے انسانوں کے دلوں کو متاثر کیا۔ آج جب پنجاب کی سیاست ذاتی مفادات، طبقاتی فرق اور مذہبی تقسیم کے گرد گھوم رہی ہے، تو بھٹائی کا پیغام روحِ انسانیت کی تازہ ہوا کی مانند محسوس ہوتا ہے جو سیاست کو خدمت اور اقتدار کو امانت بنانے کی دعوت دیتا ہے۔شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کی بنیاد عشق الٰہی اور انسان دوستی پر قائم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کا اصل مرتبہ اس کی ذات، نسل یا دولت سے نہیں بلکہ اس کے کردار اور اس کی نیت سے طے ہوتا ہے۔ یہی تصور پنجاب کے صوفی شعور میں بھی صدیوں سے موجود ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بھٹائی کا پیغام پنجاب کے عوام کے دلوں میں آسانی سے اترتا ہے۔ پنجاب کے صوفیاء مثلاً داتا گنج بخش، بابا فرید، بلھے شاہ، وارث شاہ، سخی سرور اور شاہ حسین نے بھی وہی فلسفہ پیش کیا جس میں انسان کو انسان ماننے کی تلقین کی گئی۔ بھٹائی نے اس فلسفے کو اپنی زبان میں ڈھال کر عوامی شعور کا حصہ بنایا۔پنجاب کی سیاست میں بھٹائی کے اثر کو براہ راست محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں جہاں سرائیکی ثقافت غالب ہے، وہاں بھٹائی کے کلام کو نہ صرف احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اس کی روح آج بھی عوامی تحریکوں میں زندہ ہے۔ سرائیکی وسیب کے شعرا اور دانشوروں نے بھٹائی کے کلام سے یہ سبق لیا کہ اپنی زبان، شناخت اور حقوق کے لیے جدوجہد کوئی گناہ نہیں بلکہ عین عبادت ہے۔ بھٹائی کی شاعری میں موجود مزاحمت کا عنصر پنجاب کے سیاسی کردار میں اس وقت نظر آتا ہے جب عوام طاقتور طبقوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔بھٹائی نے اپنی شاعری میں عورت کو مظلوم نہیں بلکہ طاقت کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ وہ سسی، مومل، سہور، نوری اور دیگر کرداروں کے ذریعے عورت کی وفاداری، قربانی اور استقامت کو انسانیت کی اصل بنیاد قرار دیتے ہیں۔ یہ پہلو پنجاب کی سیاست کے لیے بھی اہم پیغام رکھتا ہے۔ آج جب سیاست میں عورت کی نمائندگی محض رسمی بن چکی ہے، بھٹائی کا فلسفہ یاد دلاتا ہے کہ سیاست میں عورت کو محض ایک کردار نہیں بلکہ ایک فیصلہ ساز قوت کے طور پر شامل ہونا چاہیے۔

بھٹائی کا تصورِ سیاست اقتدار یا طاقت کے گرد نہیں گھومتا بلکہ خدمت اور عدل پر مبنی ہے۔ وہ اقتدار کو امانت سمجھتے ہیں اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کا اصل مقصد خودی کی پہچان اور خلقِ خدا کی خدمت ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر اگر آج کا پنجاب اپنی سیاست کی بنیاد رکھے تو یقیناً صوبہ استحکام، برداشت اور امن کی علامت بن سکتا ہے۔ پنجاب میں جاگیردارانہ سیاست، خاندانی مفادات اور گروہی تعصبات نے عوامی طاقت کو کمزور کر دیا ہے، مگر بھٹائی کا پیغام بتاتا ہے کہ تبدیلی نیچے سے شروع ہوتی ہے، دلوں کے انقلاب سے، نہ کہ تخت و تاج سے۔

پنجاب کے سیاسی رہنما اکثر صوفیاء کے مزاروں پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ عمل محض مذہبی عقیدت نہیں بلکہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ عوامی دلوں تک پہنچنے کا راستہ صوفیانہ محبت اور انسان دوستی سے گزرتا ہے۔ داتا دربار ہو یا بابا فرید گنج شکر کا مزار، ان کے گرد جمع ہونے والے لاکھوں دلوں میں بھٹائی کی وہی روحانی سچائی دھڑکتی ہے جو انسان کو انسان سے جوڑتی ہے۔ یہ وہی فلسفہ ہے جس نے سندھ اور پنجاب کے درمیان روحانی رشتہ قائم رکھا۔شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں علاقائیت یا قومیت سے زیادہ انسانیت کو ترجیح دی۔ ان کے نزدیک زمین، زبان اور رنگ صرف اظہار کے طریقے ہیں، اصل حقیقت انسان کی نیت اور خلوص ہے۔ پنجاب کے سیاستدان اگر اس فلسفے کو سمجھ لیں تو وہ قوم کو فرقوں اور جماعتوں سے نکال کر ایک متحد منزل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

آج جب پاکستان بالعموم اور پنجاب بالخصوص سیاسی انتشار، معاشی بے یقینی اور سماجی کشمکش سے گزر رہا ہے، تو بھٹائی کی تعلیمات ایک نئی روشنی بن کر سامنے آتی ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ طاقت کی سیاست وقتی ہوتی ہے مگر محبت اور خدمت کی سیاست ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ بھٹائی کا پیغام یہ ہے کہ اقتدار انسان کو نہیں بلکہ انسانیت کو مضبوط کرے۔ ان کے نزدیک وہ حکمران کامیاب ہے جو خود کو عوام کا خادم سمجھتا ہے، اور وہ سیاست دان ناکام ہے جو دولت اور طاقت کے نشے میں اپنی ذمہ داری بھول جائے۔شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کہا تھا کہ ’’جو سچ کا مسافر بن جائے، وہ خود منزل بن جاتا ہے‘‘۔ پنجاب کے سیاستدانوں اور عوام کیلئےیہی سب سے بڑی نصیحت ہے۔ اگر ہم اپنے دلوں میں سچ، محبت اور انصاف کی شمع روشن کر لیں تو کوئی طاقت ہمیں تقسیم نہیں کر سکتی۔ بھٹائی کی سیاست دلوں کی سیاست ہے، جہاں اقتدار نہیں بلکہ اخلاص حکومت کرتا ہے۔ یہی وہ سیاست ہے جو پنجاب کو ایک مرتبہ پھر روحانیت، ثقافت اور وحدت کا استعارہ بنا سکتی ہے۔

تازہ ترین