• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابینہ نے پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر مذہبی و سیاسی جماعت ٹی ایل پی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دینے کی منظوری دی ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 2016ء سے قائم اس تنظیم نے پورے ملک میں شرانگیزی کو ہوا دی، پرتشدد احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں سیکورٹی اہلکاروں کو مارا گیا، تاہم حتمی فیصلے کیلئے ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا جائیگاجہاں تنظیم کو اپنےدفاع کا پورا حق ملے گا۔ حکومتِ پاکستان کا یہ فیصلہ پنجاب حکومت کی جانب سے 17اکتوبر کو بھیجی گئی سمری کے بعد کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے 13اکتوبر کو مریدکے میں علی الصبح ایک بڑے کریک ڈاؤن کے دوران قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے اس جماعت کا احتجاجی دھرنا ختم کرنےکیلئے آپریشن کیا تھا جس میں بہت سے پولیس والوں سمیت خاصی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے اور کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں ۔ تب پنجاب کی چیف منسٹر مریم بی بی کا کہنا تھا کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والوں پر زمین تنگ کردی جائیگی اور انتہا پسندی کو کچل دیا جائیگا لاؤڈ سپیکرز کا بے مہابا استعمال بھی روکا جائیگا،پنجاب کی خاتون منسٹر عظمیٰ بخاری نے کہا تھا کہ مذکورہ جماعت کے امیر کی جائیدادیں اور 95بنک اکاؤنٹس سیل کردیے گئے ہیں۔ انکی مساجد محکمۂ اوقاف کی تحویل میں دے دی گئی ہیں اور انکے 223 مدارس کی جیوٹیگنگ کرلی گئی ہے جنکا انکے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ۔ دورانِ آپریشن ہمارے ایک سو اٹھارہ پولیس والوں کو گولیاں لگیں بہت سے زندگی بھر کیلئے اپاہج ہوگئے،نذہبی جماعت کی مالی معاونت کرنے والوں کی فہرستیں بھی تیار ہیں۔ پچھلے دنوں ڈیفنس منسٹر نے بھی یہ کہا تھا کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر مسلح گروہ تیار کیے جاتے رہے ہیں جو اب ریاست کو قبول نہیں۔ اس سوال پر کہ یہ گروہ کون تیار کرتا رہا ؟ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ سب جانتے ہیں“ ‎۔ یہ بھی واضح رہے کہ مریدکے میں اس مسلح تنظیم کے خلاف کریک ڈاؤن سے پہلے مذاکرات کی کاوشیں ہوئیں تاکہ احتجاج کو پرامن طور پر ختم کروایاجاسکے مگر مذہبی جماعت کے مطالبات کے باعث ایسا ممکن نہ ہو پایا۔2021ء میں بھی اس تنظیم پر پابندی عائدکی گئی تھی مگربعدازاںواپس لے لی گئی۔ 2017ء میںان لوگوں نے فیض آباد میں طویل دھرنا دیا۔تب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک تاریخ ساز تفصیلی فیصلہ صادر کیا جس میں ٹی ایل پی کے پرتشدد احتجاج کو پاکستان میں آئین قانون، جمہوریت، مذہبی رواداری، انسانی حقوق اور آزادیوں کے خلاف ایک سازش قراردیا گیا۔درویش عرض گزار ہے کہ تشدد پر یقین رکھنے والی تنظیموں کو محض کالعدم قراردینے سے سماج کو ان سے چھٹکارا نہیں دلایاجاسکتا تاوقتیکہ نظریاتی طور پر انکی پھیلائی ہوئی منافرت بھری جنونی اپروچ کو پبلیکلی دلائل کے ساتھ غلط ثابت کرکے نئی نسل کے اذہان کی صفائی نہیں کی جاتی۔ کالعدم تو پہلے بھی کئی جماعتوں کو کیاجاتا رہا ہے لیکن وہ نئے ناموں کے ساتھ دوبارہ وجود میں آجاتی رہیں ۔ درویش کو ایک مرتبہ جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر راغب نعیمی نے اپنے سالانہ منعقد ہونے والےپروگرام میں بلایا وہاں تقریر کرتے ہوئے علمائے اہلِ سنت کی خدمت میں یہ سوال رکھا کہ آپ لوگ تو صوفیائے کرام کو ماننے والے اور انکی انسان نواز تعلیمات کے پرچارک ہیں، آپ درود والے بارود والے کیوں بن گئے ہیں؟ کئی علماء نے بڑی محبت کےساتھ وضاحتیں فرمائیں کہ ہم لوگ تو وہی ہیں لیکن ہمارے اندر سے الگ گروہ مفاداتی چکروں میں اس لائن پر چل نکلا ہے ہم بھی ان سے دکھی ہیں ۔ اس متشدد گروہ نے تو کلمہ گو مسلمانوں کو بات بات پر’سر تن سے جدا ‘کی دھمکیاں شروع کردیں ۔بالفعل بندہ مومن کی حرمت ہمارے عقیدےمیں کعبے سے بڑھ کر ہے۔ ‎آج اگر ہم اپنے سماج کو واقعی ایک مہذب انسانی سوسائٹی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اختلافِ رائے کے حق کو ہیومن رائٹس کا حصہ مانتے ہوئے باہمی مکالمے کی اپروچ کو فروغ دینا ہوگا یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ چاہے عقائد کا جتنا بھی ٹکراؤ ہو انسانی جان سے بڑھ کر اس کائنات میں کوئی نظریہ کوئی سوچ یا اپروچ نہیں۔ ہر عقیدے کا توڑ ہوسکتا ہے مگر کسی کو مار کر کبھی کوئی زندہ نہیں کرسکتا۔ بابا بلھے شاہ سرکارؒ نے کیا خوب فرمارکھا ہے کہ چاہے آپ دنیا کی مقدس سے مقدس عبادت گاہ کو توڑ دیں مگر کسی انسان کادل کو نہ توڑیں لیکن بابا بلھے شاہ کو کیسے بتاؤں کہ یہاں دل کیا، دماغ، شعور اور انسانیت سب کا قتلِ عام روا رکھا جارہا ہے۔ بلاشبہ حکومتی فیصلہ قابلِ تحسین ہے مگر سوسائٹی کیلئے اس کے ثمرات تب تک برآمد نہیں ہوسکتے جب تک آپ لوگ حریتِ فکر اور آزادئ اظہار کے دریچے نہیں کھلنے دیتےاور مذہب کے سیاسی و مفاداتی استعمال کو نہیں روکتے۔

تازہ ترین