• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہالینڈ میں گزشتہ ایک ہفتے میں دو پاکستانی نوجوان قتل ہو چکے ہیں ان میں سے ایک میرے دوست کا ہونہار اور 25 سالہ تنو مند بیٹا تھا۔ جس کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی ابھی تودلہن کے ہاتھوں کی مہندی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اسے اپنے پیار کا خون دیکھنا پڑا۔وہ محنتی ،ملنسار ، اور ہالینڈ کا تعلیم یافتہ تھا۔ کچھ عرصہ قبل جب تعلیم سے فارغ ہوا تو باپ نے بیٹے کو ایک اسنیک بار خرید دی۔ اور اب وہ اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر خوب ترقی پر گامزن تھا۔ مگر تقدیر اب اسے جس راستے پر لے گئی ہے اس راستے پر گیا ہوا کوئی بھی واپس نہیں آ سکا۔

یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے یا پھر جرائم اور تشدد میں ملوث لوگوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد اس کی وجہ بنی کہ دونوں قاتل کالے سُری نامی تھے۔ یوں لگتا ہے یورپ کی تہذیب کے عروج نے یہاں آنے والے افریقیوں کی ہر ناجائز روش کو جائز قرار دے کر ممنوعات کے تمام پیمانے توڑ ڈالے ہیں۔ اور ان میں سے بیشتر کی زندگی کا صرف یہی مقصد رہ گیا ہے یعنی جرائم ،تشدد ،تعیش ، حصول زر اور منشیات- اور حکومت ہے کہ ان کے کنٹرول کے لیے کوئی جامع منصوبہ یا قانون لاگو نہیں کر رہی۔ یہاں حال ہی میں ایک سروے کے مطابق تشدد کا سب سے موثر تربیتی ادارہ ٹی وی کی اسکرین کوقرار دیا گیا ہےـ یہاں مجھے اپنی دہرائی ہوئی بات کو پھر دہرانا پڑے گا کہ اپنے اپنے دور کا مزاج اور رواج ہوتا ہے آج مغربی تہذیب جہاں بہت سی خوبیوں کی مالک ہے وہاں معاشرے میں بہت سی برائیاں بھی در آئی ہیں ان میں تشدد، مار دھاڑ قتل و غارت اور منشیات نمایاں ہیں ۔اخبار کے سروے کے مطابق بیشتر نوجوان یہ سب جرائم ٹی وی پر پیش کی جانے والی فلموں اور رپورٹوں سے اپناتے ہیں ۔منی اسکرین پر دکھائی جانے والی بیشتر فلمیں موت ہی کے کاروبار سے متعلق ہوتی ہیں۔ جرائم اور تشدد کے مظاہرے قتل و غارت کی نمائش، لاشوں کے انبار ،کہیں باقاعدہ مافیا کی جنگ اور کہیں دہشت گردی۔۔۔ موت کو یاد کرنا اچھا ہے تاکہ آدمی اپنے اعمال کا جائزہ لیتا رہے لیکن دوسروں کی موت سے بے حس ہو جانا دراصل معاشرے کے بے حس ہو جانے کی دلیل ہے آپ شام کو کسی وقت بھی اپنا ٹی وی کھولیے آپ کو خون قتل کچلے ہوئے مسخ شدہ چہرے نظر آئیں گے گولیوں کی آوازیں یوں آ رہی ہونگیں جیسے گولیوں کی موسلادھار بارش ہو رہی ہے اور یہ سب کچھ ایک کیمرے سے ہی نہیں بلکہ اس کا بھرپور تاثر قائم کرنے کے لیے بہت سے کیمروں کے ساتھ مختلف زاویوں سے فلمبندی کی گئی ہوگی جسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ موت کی ارزانی اور بدنما نمائش انسانیت کو شل کرتی جا رہی ہے۔ انسان دوستی کی جگہ بہیمیت قدم جما رہی ہے گولیوں ،بموں، راکٹوں، جنگوں اور حادثات میں مرنے والوں کی نمائش، انتظامی کارروائیوں میں قتل ہونے والوں کی نمائش، ڈاکوؤں سے مقابلے میں قتل ہونے والے شہریوں اور پولیس کے سپاہیوں کی نمائش، ہر جگہ بلا ٹکٹ موت کی نمائش لگی ہے وقت دن اور تاریخ کی کوئی شرط نہیں۔ موت- وسیع پیمانے پر موت- موت جیسے حصولِ لذت کا ذریعہ بن گئی ہو۔

آئیے اب آپ کو پرانے وقتوں کی ایک فلم کا سین دکھاؤں۔ٹرائے کی جنگ کو ایک عرصہ گزر چکا ہے یونان کے محلوں میں فتح کی خوشخبری کا انتظار ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یونانی فوج کے سردار الیگا ممینون کی بیوی کو اپنے شوہر کا انتظار ہے کہ کب وہ واپس آئے اور کب وہ اس سے اپنی بیٹی کے قتل کا انتقام لے جس کو کاہنوں کے مشورے پر یونانی بیڑے کے لیے موافق ہواؤں کی دیوی کو خوش کرنے کے لیے بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ فاتح کے عظیم الشان محل کے بڑے کمرے کو مہین پردے سے دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا دکھایا گیا ہے الیگا جب محل میں قدم رکھتا ہے اور مختلف کاریڈوروں سے گزرتا ہوا بڑے کمرے میں پہنچتا ہے اور کمرہ خالی پا کر پردے کے پیچھے جاتا ہے تو پچھلے حصے سے قتل کی اطلاع محض ایک چیخ بن کر تماشائیوں کو سنائی دیتی ہے قتل تماشائیوں کو نہیں دکھایا جاتا لیکن اس کے باوجود یہ سین اتنا بھرپور تاثر چھوڑتا ہے کہ تماشائی چند لمحوں کے لیے سکتے میں آ جاتے ہیں وہ سب تاثر جو عام طور پر خون بہانے یا خون دکھانے سے پیدا کیا جاتا ہے ہدایت کار کی ذہانت نے اسے عدم تشدد میں بدل دیا ۔ فن میں بھی اپنے اپنے زمانے کے اصول ہوتے ہیں اور ابھی کل تک خواب گا ہوں اور غسل خانوں کے مناظر ممنوعات میں شامل تھے چہ جائے کہ گھناؤ نے جرائم تشدد اور قتل کی شقاوت سے خبر دی جائے- میں نے کہا ہے ناں اپنے اپنے دور کا مزاج اور رواج ہوتا ہے۔

لگے ہاتھوں آپ کو مغرب میں رونما ہونے والے جرائم کی فہرست بھی مہیا کر دوں اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فطری کمینگی کا علاج نہ گھر کی اچھی روایتیں اور تربیت ہے نہ ہی باہر کی اعلیٰ تعلیم اور ماحول۔ انسان اچھوں کی تعریف تو کر سکتا ہے لیکن خود اچھا بننا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ۔امریکہ ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں سب سے زیادہ قیدی ہیںیہ تعداد 16 لاکھ 30 ہزار 940 ہے ۔اس کے بعد روس ہے جہاں 10 لاکھ 51ہزار515 قیدی ہیں۔جرمنی میں 71 ہزار 47 ،پولینڈ میں 57 ہزار 320، انگلینڈ اور ویلز میں 55 ہزار 537،فرانس میں 54 ہزار 14،اٹلی میں 48 ہزار 747،اسپین میں 42 ہزار 105، ہالینڈ میں 25 ہزار 29 اور کینیڈا میں 33 ہزار 785 قیدی ہیں۔ ـ

میں تجھ کو بھول گیا اس کا اعتبار نہ کر

مگر خدا کے لیے میرا انتظار نہ کر

تازہ ترین