• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نائلہ روبی (واہ کینٹ)

آج ننّھی کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ دو دن پہلے ہی مَیں نے اُس کے سر میں خوب بھر کے کڑوا تیل لگایا اور کس کے چُٹیا کی تھی۔ اور ننّھی کتنا چیخ رہی تھی۔ ’’امّاں! انکھوں میں لگ رہا ہے، پانی نکل رہا ہے۔ کچھ نظر نہیں آرہا…‘‘ مگر مَیں پروا کیے بغیر اُس کے سر میں خُوب مالش کررہی تھی۔ ’’پہلے تو اپ سرسوں کا تیل لگاتی تھیں۔ مَیں نے اسکول جانا ہے، تو کڑوا بُو والا تیل لگا دیا ہے۔‘‘ مَیں نے اُس کے سر پر چپت لگائی اور اُسے ’’اسکول کی لڑکیوں کے سر میں جوئیں ہوتی ہیں۔‘‘ کہہ کر اُٹھنے کو کہا۔

ہفتے کا پورا دن گزرا اور اتوار کی شام کو گرم پانی سے ننّھی کا سر دھو کر سونگھا۔ ابھی بھی سر سے چکناہٹ اور بُو نہیں گئی تھی۔ اطمینان سے اُس کا یونی فارم استری کر کے کھونٹی پر لٹکایا۔ کالے بوٹوں کے اندر سفید جرابیں ڈال کر یونی فارم کے نیچے رکھا تو آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ ’’شکریہ امّاں! اس سب کے لیے…‘‘ اپنا اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کا پہلا دن یاد آگیا۔ اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی، جب حاشر کو اندر آتے دیکھا۔ زبان سے بےاختیار نکلا۔ ’’بہت شکریہ اماں…!!‘‘یادوں کے دریچے سے اپنے ہی چیخنے کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔

’’امّاں! مجھے کوئی ساتھ نہیں بٹھاتا۔ ٹیچرز کہتی ہیں، شیمپو سے سردھو کرآیا کرو۔ امّاں! میری کوئی سہیلی نہیں۔‘‘ ’’ارے مَیں ہوں ناں… تمہاری پکی سہیلی…‘‘ ’’وہ تو ہے مگر…‘‘’’مگر کیا…؟‘‘ ’’کبھی چُھٹی ہوگئی تو کام کس سے لیا کروں گی؟‘‘’’اور تم چُھٹی کیوں کروگی؟‘‘ اماں کہتیں۔ ’’دھیان سے اپنا کام کرنا ہے تاکہ کسی سے مدد لینی ہی نہ پڑے۔‘‘ کلاس کی لڑکیاں کہتیں، یہ گلاب مارکہ شیمپو سے سر دھوتی ہے۔ اُن کی ان باتوں سے میں شرمندہ ہو جاتی۔ 

امّاں کو روز شکایت لگاتی، مگر امّاں ہربار کہتیں۔ ’’اچھا تم شیمپو کا نام پوچھ کر آنا، تمہارے ابّا اس بار شہرجائیں گے، تو منگوا لوں گی۔‘‘ مگر وہ دن کبھی نہ آیا۔ ابّا شہر جاتے، مگر ہمیشہ ’’اوہ، یاد ہی نہیں رہا۔‘‘ کہہ کر ٹال دیتے۔ اور مَیں بھی ضد نہ کرتی، یہاں تک کہ مَیں ہر اس چیز کی عادی ہوگئی، جو امّاں، ابّا کو پسند تھی۔ چند دن تک سرکی بُوبھی ختم ہوگئی، مگر میری کوئی ہم جولی نہ بن سکی۔

یونی ورسٹی پہنچنے تک میرا سارا کام مکمل ہوتا، کسی سے کبھی نوٹس لینے کی نوبت نہ آئی۔ اگر کبھی ضرورت محسوس ہوتی تو ابّا کارنر بُک سینٹر سے بنے بنائے نوٹس لا دیتے۔ مَیں ہمیشہ پہلے دس طالب علموں کی فہرست میں رہی۔ اپنے شوق بھی پروان چڑھائے، مگر میرا کسی بھی جنس سے سلام دُعا کے علاوہ کوئی تعلق نہ بنا۔ صرف اِس وجہ سے کہ میرا سر تیل سے چُپڑا ہوتا، آنکھوں میں سُرما اور کًس کے چُٹیا بنی ہوتی۔ 

کبھی جو مَیں خُود کو آئینے میں ڈھنگ سے دیکھتی، تو اپنی اچھی بھلی شکل کو اس طرح دیکھ کرخُود ہی ڈرجاتی۔ کھنچی ہوئی آنکھیں اور عجیب بے ڈھنگی سی۔ غصّہ بھی آتا، مگر امّاں کے سامنے ایک نہ چلتی۔ پتا نہیں، مَیں کتنی عجیب لگتی تھی، جو اسکول میں میری کرسی سب سے الگ ہوتی اور کالج میں بھی میں کوئی اورہی سیارے کی مخلوق تصور کی جاتی۔ 

گوکہ میری تعلیمی کارکردگی قابلِ ستائش تھی اور اساتذہ کی نظروں میں میرا ایک مقام بھی بن چُکا تھا۔ اور یہی امّاں، ابا کی خواہش بھی تھی۔ مگر… سب سے ایک فاصلہ ہمیشہ برقرار رہا۔ اور یونی ورسٹی میں تو مجھے دیکھتے ہی لڑکے، لڑکیاں کُھسر پُھسر شروع کر دیتے۔ ایک بارتو کسی نے مجھے شمیم آراء بھی کہہ دیا۔ مگر امّاں کا حُکم تھا ’’دھیان صرف پڑھائی پر دینا ہے۔‘‘ اور پھر ساری منازل طے کر لیں۔

یہاں تک کہ مَیں سرکاری افسر حاشر کی دلہن بن کر اُس کے آنگن میں آگئی۔ زندگی کا سفر کڑوے تیل سے شروع ہوا، تو گِری کے خُوشبو دار تیل سے تَر ہوگیا۔ اب مَیں پوری طرح آزاد تھی۔ حاشر بہت خُوب صُورت اور خُوب سیرت انسان تھے۔ ہم دونوں نے مِل جُل کر زندگی کے نشیب و فراز سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کی۔ سب رشتوں کواچھی طرح سے نبھایا۔ پھر ہماری زندگی کو مکمل کرنے شیزا آگئی۔ ہماری ننّھی پری… جو اب اسکول کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے والی تھی۔

اور آج… مَیں نے ننّھی کو کڑوا تیل لگایا، تو بےاختیار امّاں پہ پیار آیا کہ کیسے امّاں نے میرے ارد گرد کڑوے تیل کی ناگوار بُو سے حصار باندھ کر مجھے ہر طرح کے جِن و انس کے شر سے محفوظ کردیا۔ 

مَیں نے بھی امّاں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ننّھی کے سر میں تیل لگا کر اُسی خوب صُورت سفر کا آغاز کر دیا تھا، جس کی آخری سیڑھی پر حاشر جیسا کوئی شان دار شخص بانہیں کھولے خُوش بُودار لمحوں سے سواگت کرنے کو کھڑا ہوگا۔

دل شُکر اور محبّت کےجذبات سے لب ریز ہوگیا۔ ’’پیاری امّاں! کتنی دُور اندیش تھیں آپ… آپ نے میرے سر میں تو کڑوا بدبودار تیل لگا دیا، مگر میرے کردار کو ہر طرح کی تلچھٹ سے بچا کر خوش بُو دار بنا دیا۔ سلام ہے میری ماں۔‘‘ مَیں نے تصوّر ہی میں اپنی ماں کو ہاتھ کے اشارے سے سلام پیش کیا۔ امّاں کی کڑوا تیل لگانے والی حکمت کی سمجھ تو مجھے آج آئی تھی، ننّھی کو اسکول بھیجتے ہوئے۔

سنڈے میگزین سے مزید