ڈینگی، فلیوی وائرس کی ایک قسم ہے۔ اِس کے مختلف سیروٹائٹ(خاندان) ہوتے ہیں، تو ایک خاندان کے وائرس میں مبتلا ہوکر صحت یاب ہوجانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ڈینگی کے دوسرے خاندان سے آپ کو قوّتِ مدافعت حاصل ہوگی۔
یہ ایک مچھر Aedes کے ذریعے انسان سے انسان میں پھیلتا ہے، تاہم متاثرہ فرد، کسی استعمال شدہ سرنج، تھوک یا حاملہ سے بچّے میں اس کی منتقلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈینگی کا مرض دنیا کے128ممالک کو زیادہ متاثر کر رہا ہے۔
خصوصاًTropical and subtropical ، دنیا میں 3 ارب افراد اِس کے نشانے پر ہیں۔ یہ سالانہ دس سے چالیس کروڑ افراد کو متاثر کرتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
اِن تبدیلیوں سے ڈینگی میں مبتلا ہونے والے70فی صد افراد کا تعلق ایشیا سے ہے، جب کہ لاطینی امریکا، جیسے کہ برازیل اور پیرو وغیرہ میں بھی ڈینگی متاثرین کی خاصی تعداد موجود ہے۔ اس کا وائرس، مچھر کے ذریعے جسم میں داخل ہونے کے بعد7 سے 10دن میں اپنی علامات جیسے بخار، جسم میں درد، سردی لگنا، آنکھوں میں درد، جوڑوں اور جسم میں درد وغیرہ ظاہر کرتا ہے۔
متاثرہ افراد میں سے ایک بہت بڑی تعداد کو تو ڈینگی کے حملے کا پتا ہی نہیں چلتا۔ تقریباً20فی صد متاثرہ افراد میں بخار کے ساتھ Pletelets بھی کم ہوجاتے ہیں۔ بہت ہی قلیل افراد میں خونی ڈینگی ہوتا ہے، جس میں پلیٹیلیٹس بہت زیادہ تعداد میں گر جاتے ہیں اور جسم کے مختلف حصّوں سے خون رِسنے لگتا ہے، جب کہ بلڈ پریشر بھی انتہائی کم ہوجاتا ہے۔
بیش تر مریض ایک ہفتے میں صحت یاب ہوجاتے ہیں، تاہم چند مریضوں میں مختلف پیچیدگیوں کے سبب یہ دورانیہ بڑھ بھی سکتا ہے۔ خصوصاً شوگر کے مریضوں، بڑی عُمر کے افراد اور حاملہ خواتین میں پیچیدگیاں زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ ڈینگی نہ صرف پلیٹیلیٹس کم کرتا ہے، بلکہ کئی کیسز میں جگر، گُردے، لبلبے اور دماغ کو بھی متاثر کرتا ہے۔
تشخیص:٭سفید خلیات کی کمی٭ پلیٹیلیٹس کی تعداد میں کمی٭ ALT اور HB کا بڑھنا٭ ESR کا نارمل ہونا٭خون میں تبدیلی ہونا۔
خاص ٹیسٹ: (شروع کے دنوں میں)٭ Dengue PCR یا NCI by Elisa ۔بخار کے کچھ دنوں کے بعد٭ Dengue IgM antibody ٭ Dengue IgG antibody
ڈینگی سے ملتی جُلتی بیماریاں: وہ تمام بیماریاں، جن میں بخار، جسم میں درد کے ساتھ ہوتا ہے اور پلیٹیلیٹس کم ہوجاتے ہیں۔ جیسے ملیریا، ٹائی فائیڈ اور چکن گونیا۔
پیچیدگیاں: ڈینگی سے ہونے والی پیچیدگیوں میں نمونیا، خون کی شدید قلّت، ہیپاٹائٹس، آنکھوں کی سوزش، گردن توڑ بخار، بازوئوں اور ٹانگوں کا کام چھوڑ دینا، دماغ کی شریان کا پھٹنا اور جسم کے مختلف حصّوں سے خون کا بہنا شامل ہیں۔ حاملہ خواتین میں بھی پیچیدگیاں زیادہ دیکھی جاسکتی ہیں۔
علاج: اس کا کوئی خاص علاج نہیں ہے۔ زیادہ تر Supportiveعلاج کیا جاتا ہے۔ جیسے بخار اور درد کی ادویہ، خصوصاً پیراسٹامول وغیرہ۔ اِس دوران خُوب پانی پینا اور آرام کرنا چاہیے۔ نیز، ڈینگی بخار میں Ponstan, Brufen, Proxen Voren اور NSAID لینے سے گریز کرنا چاہیے۔
پلیٹیلیٹس کب لگانے چاہئیں؟ پلیٹیلیٹس گرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ مرض خراب ہوجائے گا۔ عموماً پلیٹیلیٹس اُس وقت لگانے چاہئیں، جب کسی جگہ سے خون رِس رہا ہو یا تعداد10 ہزار سے کم ہوجائے۔ کیوں کہ پلیٹیلیٹس لگوانے سے فائدے کی بجائے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم امر مریض کا بلڈ پریشر اور اس میں پانی کی کمی یا زیادتی کو مانیٹر کرنا ہوتا ہے۔
ڈینگی میں شرحِ اموات: ڈینگی میں شرحِ اموات2.5 فی صد ہے۔ بہت کم پلیٹیلیٹس کے ساتھ اگر ALT اورAST بہت زیادہ ہوں، تو یہ بیماری کا خطرہ بڑھنے کی طرف اشارہ ہے۔ اِسی طرح اگر بلڈ پریشر گرنے کے ساتھ Creatinine بڑھ جائے، تو یہ بھی خطرناک صورتِ حال ہوسکتی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ڈینگی سے اموات کی شرح میں خاصی کمی آئی ہے اور اس کی بڑی وجہ بروقت پیچیدگیوں کی تشخیص اور علاج ہے۔ بدقسمتی سے زیادہ تر اموات ایشیا ہی میں دیکھی جاتی ہیں۔
بچاؤ: اِس ضمن میں سب سے اہم کام تو مچھروں کی افزائش روکنا اور ان کے کاٹنے سے بچنا ہے۔ مچھروں کے خاتمے کے لیے اسپرے کرنا چاہیے اور یہ کام لوگ حکومت کے تعاون کے بغیر خود بھی کر سکتے ہیں۔ یاد رہے، اسپرے کا خاص وقت شام یا علی الصباح ہوتا ہے۔ نیز، گھروں اور اپنے علاقوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔
ڈینگی کی ویکسین: Dengvaxia صرف 50فی صد افراد میں کارآمد ہے۔ تاہم، ویکسین کی بہتری کے لیے بہت کام ہورہا ہے۔ (مضمون نگار، ایمس اسپتال، حیدرآباد سے وابستہ ہیں۔)