• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نسلِ نو ’’شاہین‘‘، ’’مردِ مومن‘‘، ’’معمارِ امّت‘‘ جیسی تراکیب سمجھ لے، تو پورا معاشرہ سنور سکتا ہے
نسلِ نو ’’شاہین‘‘، ’’مردِ مومن‘‘، ’’معمارِ امّت‘‘ جیسی تراکیب سمجھ لے، تو پورا معاشرہ سنور سکتا ہے

اقبال کی شاعری محض الفاظ کا تسلسل نہیں، ایک دعوتِ عمل، ا یک بےدار کن پُکار ہے، جو ہر دَور کے نوجوانوں کے دِلوں پر دستک دیتی ہے۔ اُنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نو جوانوں کو خود اعتمادی، عِلم اور عمل پر مبنی زندگی گزارنے کی بھرپور ترغیب دی، تاکہ وہ اپنی تربیت ہی نہیں، معاشرے کی بہترین رہنمائی بھی کرسکیں۔ 

اس حوالے سے انھوں نے جس ’’خودی‘‘ کا تصوّر پیش کیا، وہ دراصل انسان کی اپنی اصل پہچان، صلاحیتوں کی بے داری اور خالقِ کائنات کے ساتھ تعلق کی مضبوطی کا نام ہے۔ یہی خودی جب پختہ ہوتی ہے تو انسان کو خود اعتمادی، جرأتِ فکر اور عزمِ عمل عطا کرتی ہے۔

اقبال کا تصوّرِ خودی صرف انَا یا غرور نہیں، بلکہ خود آگاہی، خود شناسی، اور اپنی ذات کی قدر و قیمت پہچاننے کا نام ہے۔ اُن کے مطابق، خودی کی تربیت سے انسان کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور وہ اپنی ذات کی پہچان کے ذریعے اپنے ربّ کو پہچاننے کے بلند مرتبے تک پہنچ سکتا ہے۔ اس فلسفے میں عمل، کردار، اور بلند مقصد کے حصول کے لیے تگ و دو کو خودی کو مضبوط کرنے کے بنیادی عناصر کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی کی تربیت کے تین بنیادی مراحل ہیں۔

اطاعت، یعنی شریعتِ الٰہی کی عملی اطاعت اور فرائض کی ادائی۔ ضبطِ نفس، یعنی اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانااور نیابتِ الٰہی، یعنی تخلیق انسانی کا سب سے اعلیٰ مقصد، جس میں انسان خدا کے ’’نائب‘‘ کا درجہ حاصل کرتا ہے اور خودی کی تکمیل کے بعد، جب فرد اپنی صلاحیتوں کو اجتماعی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنی جماعت اور ملّت سے رابطہ قائم کرتا ہے، تو وہ ’’بے خودی‘‘ کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔

اقبال کے نزدیک نوجوان ہی وہ قوت ہے، جوخودی کو پہچان کر اپنی منزل کی سمت رواں دواں ہوجائے تو قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جس وقت برّعظیم، غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ قوم مایوسی، احساسِ کم تری اور خود فراموشی کے اندھیروں میں ڈوب چکی تھی۔ ایسے میں اقبال کی آواز بجلی کی گرج کی مانند اُبھری اور سوئے ہوئے ذہنوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔

انہوں نے نوجوانوں کو یاد دلایا کہ اُن کی رگوں میں وہی خون دوڑ رہا ہے، جو کبھی بدر و حنین کے میدانوں میں بہادری کی داستانیں رقم کرتا رہا۔ ایسے میں اقبال نوجوانوں سے مخاطب ہوکرکہتے ہیں؎ کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کیا تو نے.....وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا۔

یہ شعر محض احساسِ زیاں نہیں، بلکہ ایک سوال ہے کہ مسلمان نوجوان کس شان دار ماضی کا وارث اور کس عظیم مقصد کا حامل ہے۔ ان کی نگاہ میں نوجوان صرف ملازمت اختیار کرنے یا روزمرّہ زندگی گزارنے والا فرد نہیں، بلکہ وہ معمارِ قوم ہے، جو اپنے عزم سے تاریخ کا دھارا موڑ سکتا ہے۔

انھوں نے خودی کا فلسفہ محض شاعرانہ انداز میں پیش نہیں کیا، بلکہ اسے عملی تربیت کا حصّہ بھی بنایا۔ اُن کے نزدیک خودی، دراصل ایمان کی حرارت ہے، جو انسان کو بزدلی، غلامی اور مصلحت سے نکال کر غیرت، استقلال اور خود اعتمادی کی راہ پر گام زن کرتی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان، اپنی خودی اس درجے تک پہنچا دے کہ اپنی تقدیر خود لکھ سکے۔

چناں چہ فرماتے ہیں ؎ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے.....سرِ آدم ہے، ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی۔ یعنی اگر انسان میں زندگی کی حرارت ہے، تو وہ خود اپنی دنیا تراش سکتا ہے۔ یہ پیغام آج بھی اُتنا ہی تازہ ہے، جتنا اقبال کے زمانے میں تھا۔بلاشبہ، آج کا نوجوان جدید تعلیم یافتہ ہے، مگر بدقسمتی سے ذہنی طور پر مغرب کی چمک دمک کا اسیر ہوچکا ہے۔

چوں کہ اقبال کا زمانہ ، برطانوی استعمار کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ غلامی کے ماحول میں پلے بڑھے، تو نوجوانوں کی کم زوریوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ اُن کی متعدد نظموں، مثلاً ’’جاوید کے نام، طلبہ علی گڑھ کالج کے نام اور ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام‘‘ میں جہاں ان کم زوریوں اور کوتاہیوں کا ذکر ہے، وہیں اس کے ساتھ ساتھ، یہ نظمیں ، نژادِ نو سے متعلق اقبال کی امیدوں، آرزوؤں اور ولولوں کا خُوب صُورت اظہار بھی ہیں؎ ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی..... لہو مجھ کو رُلاتی ہے، جوانوں کی تن آسانی.....عقابی رُوح جب بے دار ہوتی ہے جوانوں میں.....نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں۔اور پھر نوجوانوں کو ’’شاہین‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مومن کی اصل زندگی بلندیوں کی تلاش میں ہے۔

زمین پر بیٹھنے والا پرندہ کبھی شاہین نہیں کہلاتا اور یہی وہ علامت ہے، جو اقبال کی فکر کا مرکزی نکتہ ہے۔ بلندی، حوصلہ، خود اعتمادی اور عمل۔ اقبال کہتے ہیں؎ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں.....کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور۔ یہاں شاہین محض ایک پرندہ نہیں بلکہ ایک کردار ہے، جو اپنے عزم اور خودی سے آسمانوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ نوجوان کرگس کی مانند مردار خوری اور آسان زندگی پر قانع نہ ہو، بلکہ شاہین بن کر چیلنجوں سے الجھے، مشکلات سے نہ گھبرائے اور اپنی منزل خود طے کرے۔

وہ مومن کے کردار میں ایک ایسی خود اعتمادی دیکھنا چاہتے ہیں، جو اس کے ایمان کی جھلک ہو۔ اس ضمن میں وہ کہتے ہیں؎ یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے.....وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری۔ یہ یقین دراصل خودی ہی کا دوسرا نام ہے اور آج کے نوجوان کو اسی یقین کی ضرورت ہے، جو اندھی تقلید اورکم زوری سے نکال کر خود اعتمادی کے میدان میں لا کھڑا کرے۔

اقبال کے نزدیک تعلیم کا مقصد بھی یہی تھا کہ انسان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانے، نہ کہ محض روزگار کا ذریعہ بنائے۔ وہ ایسی تعلیم کے مخالف تھے، جو انسان کو غلام بنائے اور ایسی تعلیم کے حامی، جو اس میں سوال کرنے، سوچنے اور بدلنے کی جرأت پیدا کرے۔ آج جب ہمارا تعلیمی نظام نمبروں، رٹے اور امتحانوں کے گرد گھوم رہا ہے، اقبال کی تعلیمِ خودی ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی ہے۔ 

وہ چاہتے تھے کہ نوجوان علم کے ساتھ حکمت بھی حاصل کرے، کیوں کہ علم بغیر حکمت محض بوجھ ہے۔ اس حوالے سے کہتے ہیں ؎ علم نے مجھ سے کہا، عشق ہے دیوانہ پن.....عشق نے مجھ سے کہا، علم ہے تخمین و ظن۔ بدقسمتی سے فی زمانہ یہی وہ تصادم ہے، جو آج بھی ہمارے تعلیمی اداروں میں موجود ہے۔ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ آج کا نوجوان اپنے ’’اصل‘‘ سے کٹتا جا رہا ہے۔ دوسروں کی تقلید میں اپنی پہچان کھو رہا ہے۔

سوشل میڈیا کے شور میں اقبال کی خاموش دعوتِ فکر دب گئی ہے۔ ہم نے خودی کو خود غرضی سمجھ لیا، خود اعتمادی کو تکبّر اور آزادی کو بے راہ روی۔ اقبال کی خودی ان سب سے مختلف ہے۔ وہ اللہ سے رشتہ مضبوط کرنے، اپنی فطری صلاحیتیں نکھارنے اور اپنے اندر کی قوتوں پر یقین رکھنے کا نام ہے اور یہی خودی جب جوان ہوتی ہے تو انسان کو خود اعتمادی عطا کرتی ہے۔

اقبال کی شاعری میں نوجوان کو کبھی شاہین کے روپ میں، کبھی مردِ مومن کی صُورت، تو کبھی امت کے معمار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ وہ اس کے سامنے وہ کردار رکھتے ہیں، جو خواب دیکھتا ہے اور پھر ان خوابوں کو حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ وہ نوجوان سے صرف بلند خیالات کا نہیں، بلکہ بلند کردار کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ان کے نزدیک ایمان محض الفاظ نہیں، ایک جیتی جاگتی قوت ہے، جو انسان کو حرکت میں لاتی ہے۔آج کے نوجوان کے لیے اقبال کی فکر محض شاعری نہیں، ایک عملی راستہ ہے کہ دنیا جس تیز رفتاری سے بدل رہی ہے، اس میں وہی قومیں کام یاب ہوں گی، جو اپنی روحانی بنیادوں کو برقرار رکھتے ہوئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ 

اقبال کے نزدیک اسلام محض عبادات کا نظام نہیں، بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے، جس میں عمل، علم، ایمان اور اخلاق سب شامل ہیں۔ بلاشبہ، نوجوان اگر اقبال کا تصورِ خودی سمجھ لے، تو وہ نہ صرف اپنی ذات بلکہ پورا معاشرہ بدل سکتا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید