• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے طلب دیں، تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا، جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
مولانا طاہر القادری کی بزنس کلاس کی سیٹ پر بیٹھ کر فرمائشیں سن کر مجھے غالب کے مندرجہ بالا اشعار یاد آگئے جو کالج کے سلیبس میں پڑھے تھے۔ آپ کو یاد ہے مولانا جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں اسلام آباد سردیوں کے سخت موسم میں اپنے گرم کنٹینر کے اندر سے باہر ٹھٹھرتے ہوئے عوام، خواتین اور بچوں کے لئے خوشخبریوں پہ خوشخبریاں سنانے کا سلسلہ جاری کئے ہوئے تھے تو کچھ بھی نہ ہوا صرف بارش آگئی اور مولانا نے اپنے بنکر میں چند وفاقی وزیروں کو طلب کیا۔ وزراء جب گرم کنٹینر میں گئے تو مولانا ان کو یوں خوش آمدید کہہ رہے تھے جیسے شادی والے گھر میں میزبان مہمانوں کو ہاتھوں میں ہار لیکر خوش آمدید کہتے ہیں۔ مولانا بچوں کی طرح خوش تھے اور سارا انقلاب کا ڈرامہ صرف چند وزیروں کی آمد پر ختم ہوگیا اور آصف زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے بغیر کسی انقلاب کے پانچ سال مکمل کرلئے۔ اب مولانا دوبارہ سخت گرمی کے موسم میں تشریف لائے۔ ایجنڈا پھر وہی پرانا انقلاب اس دفعہ خیر حکومت سے بھی بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی جس کو میں نواز شریف کی حکومت کے خلاف اندرونی سازش قرار دوں گا۔ گزشتہ ہفتہ میں نے اس پر تفصیلی کالم لکھا تھا اور بتایا تھا کہ کس طرح پرویز مشرف کے خلاف اس کے اپنے لوگوں نے بیرونی قوتوں کے کہنے پر خوبصورت سازش کی اور موصوف کرسی صدارت سے فارغ ہوگئے۔ ہو بہو وہی سازش نواز شریف کے خلاف ہوئی ہے مگر شہباز شریف سمجھدار آدمی ہیں۔ ان کی سمجھ میں ساری بات آگئی ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بہرحال بات مولانا کے ہوائی سفر کی ہورہی تھی۔ حکومت نے ایک مرتبہ پھر غیر ضروری طور پر جہاز کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیا۔ مولانا غیرملکی ایئر لائن کی بزنس کلاس سیٹ پر قابض ہوگئے اور جہاز سے اترنے سے انکار کردیا۔ اپنے ساتھ دو سو کے قریب مسافروں کو بھی سیٹوں پر بٹھادیا۔ کئی گھنٹے تماشا بنا رہا۔ اور آخر گورنر پنجاب کی آمد پر مولانا بچوں کی طرح خوش ہوگئے اور خوشی خوشی اپنے گھر چلے گئے۔ انقلاب ملتوی ہوگیا اور امارات کا جہاز رہا ہوگیا۔ بقول غالب
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو ہر سال 25؍ دسمبر یا 14؍ اگست کو گورنر پنجاب ملک امیر محمد خان کالا باغ اسکولوں سے بچوں کو گورنر ہائوس بلاتے تھے۔ اسکول والے خاص خاص بچوں کو گورنر ہائوس بھیجتے تھے۔ میں ہر سال سلیکٹ ہو جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جس طرح گورنر سے مل کر مجھے اور دوسرے بچوں کو خوشی ہوتی تھی بالکل اسی طرح طاہر القادری گورنر پنجاب سے مل کر پھولے نہیں سمارہے تھے۔ ان کو اب جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ انہیں گورنر کا پروٹوکول چاہئے تھا سو وہ مل گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ مولانا کی بچپن کی کوئی خواہش ہے جسے وہ اب یوں پورا کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف بڑے اعلیٰ مقرر ہیں اور بڑے مجمع کو کافی دیر تک جمانے کی خداداد صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ مولانا کو دینی امور پر بھی عبور حاصل ہے اور بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں۔ مولانا کی سیاسی بصیرت کیا ہے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ ان کا ایجنڈا اپنا ہے یا کہیں کا امپورٹڈ ہے اس میں فوج ، مارشل لا کی آمیزش ہے یا ان چیزوں سے پاک ہے۔ حکومت کو گھر بھیجنے کا آئینی یا غیر آئینی طریقہ ان کے پاس کیا ہے؟ یہ بات وضاحت طلب ہے۔ 90کی دہائی میں چار مرتبہ حکومتوں کو ان کی نااہلی پر گھر بھیجا گیا مگر ہر دفعہ یہ کام فوج کی مدد سے ہوا۔ اب کیا مولانا پھر کسی فوجی امداد کے منتظر ہیں یا ان کے لئے ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تمام سوالات وضاحت طلب ہیں۔ صرف مجمع لگا کر تقریر کرنے سے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ تو شیخ رشید بھی کرلیتے ہیں۔ ہم اسکول کے تقریری مقابلوں میں ایک شعر مخالف مقرر کے لئے پڑھتے تھے آپ کی نذر کرتا ہوں
فصاحت میں وہ بھی تو کچھ کم نہیں ہیں
جو مجمع لگا کر دوا بیچتے ہیں
تو میرے بھائی اگر صرف دوا ہی بیچنی ہے تو پھر معصوم جانوں کو کیوں قتل کروا رہے ہو۔ حکومت سے معاہدہ کر لو کہ گورنر کو ہر ہفتے آپ کے گھر بھیج دیا کریں گے۔ یہ تو میرا بے لاگ تجزیہ تھا جو میں نے موڈ میں آکر لکھ دیا۔ حقیقت کیا ہے؟ یہ تو طاہر القادری صاحب ہی جانتے ہیں یا پھر جنہوں نے ان کو بلایا ہے وہ جانتے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں گولی چلانے کا آرڈر کس نے دیا تھا۔ رہا گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے توڑنے تک تو کافی ہے اس سے آگے کے اختیارات بڑوں کے پاس ہوتے ہیں مگر اب سب بڑے خاموش ہیں۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ یہ سازش ہے۔ حکومت کے خلاف ان کے اپنے لوگوں کی۔ مجھے یاد آیا کہ مولانا بزنس کلاس کی سیٹ پر بیٹھ کر بلٹ پروف گاڑی مانگ رہے تھے۔ اگلے دن پی آئی اے کے جہاز پر گولیاں چل گئیں اور ایک خاتون جاں بحق ہوگئی جبکہ عملے کے دو افراد گولیوں سے زخمی ہوگئے۔ مجھے فوراً خیال آیا کہ مولانا کو مشورہ دوں کہ آئندہ بلٹ پروف جہاز میں سفر کیا کریں کیونکہ جہاز کے اندر بھی گولی چلی جاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مولانا آئندہ بلٹ پروف جہاز ہی میں سفر کریں گے۔ آپ یقین کریں کہ یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں پہ تماشے ہوتے ہیں۔ ذرا کینیڈا میں کوئی جہاز کو روک کر دکھائے۔ یہاں ہمارے الیکٹرونک میڈیا نے 8 گھنٹے تک مسلسل مولانا کو کروڑوں روپے کی پبلسٹی مفت دیدی۔ آخر میں میری دعا ہے کہ آپ سب خوشیوں کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبال کریں۔ اپنے غریب اور سفید پوش دوستوں اور رشتہ داروں کی اس طرح مالی امداد کریں کہ انہیں محسوس نہ ہو کہ آپ ان کی مدد کررہے ہیں۔ خدا آپ کی نیکی قبول کرے اور ہزاروں خوشیاں دکھائے۔ آخر میں غالب کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے میرا جام سفال اچھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
تازہ ترین