پاکستان کی معیشت کی بنیاد جن ستونوں پر قائم ہے، ان میں صوبہ سندھ اور خصوصاً سندھی عوام کا کردار نہایت اہم اور نمایاں ہے۔ سندھ محض ایک جغرافیائی اکائی نہیں بلکہ ایک ایسا علاقہ ہے جس نے اپنی زرخیز زمینوں، قدرتی وسائل، صنعتی سرگرمیوں اور تجارتی مرکز کراچی کے ذریعے پورے ملک کی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ یہ صوبہ ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً چوتھائی اور رقبے کا پانچواں حصہ رکھتا ہے، مگر اس کا معاشی اثر ان اعداد سے کہیں زیادہ وسیع اور گہرا ہے۔سندھ کی معیشت متنوع ہے۔ یہاں صنعت، زراعت اور خدمات تینوں شعبے یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں سندھ کا حصہ تیس فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جو کسی بھی لحاظ سے معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔ سندھ کی زمینیں دریائے سندھ کے کنارے واقع ہونے کے باعث نہایت زرخیز ہیں، جس نے اسے زرعی لحاظ سے خودکفیل بنایا۔ اندازاً ملک کے چاول کا تیس فیصد، کپاس کا پچیس فیصد، گنے کا تیس فیصد اور سبزیات کی پیداوار کا بڑا حصہ سندھ سے آتا ہے۔ ان اعداد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ دیگر صوبوں اور برآمدات کے لیے بھی ایک مضبوط ذریعہ ہے۔صنعتی لحاظ سے سندھ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ کراچی، جو پاکستان کا سب سے بڑا مالیاتی اور صنعتی مرکز ہے، سندھ کا ہی شہر ہے۔ یہی شہر ملک کے زیادہ تر مالیاتی اداروں، بینکوں، اسٹاک ایکسچینج اور کارخانوں کا مرکز ہے۔ اندازاً کراچی اکیلا پاکستان کی معیشت میں بیس فیصد سے زائد حصہ رکھتا ہے۔ اس شہر میں پیدا ہونے والا ہر نیا کاروبار ملک بھر میں روزگار کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ چاہے وہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ہو، اسٹیل، آئل ریفائنری، شپنگ، یا خدمات کا شعبہ ۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں لاکھوں سندھی مزدور، کاریگر، تاجر اور پروفیشنل اپنی محنت کے ذریعے پاکستان کا معاشی پہیہ گھماتے ہیں۔
سندھ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر معدنی ذخائر بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ملک کے تیل اور گیس کی ایک بڑی پیداوار سندھ سے حاصل کی جاتی ہے۔ تھر کا کوئلہ آج پاکستان کی توانائی کا نیا سرچشمہ بن چکا ہے۔ اگر اس خطے کے وسائل کو مکمل طور پر بروئے کار لایا جائے تو سندھ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔تاہم سندھ کے اس مضبوط معاشی کردار کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان ترقی کا فرق ہے۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہری مراکز ترقی یافتہ ہیں، مگر اندرونِ سندھ کے بہت سے علاقے اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ دیہی سندھ میں غربت کی شرح زیادہ ہے، تعلیم اور صحت کے مواقع محدود ہیں اور زراعت جدید ٹیکنالوجی سے ابھی پوری طرح منسلک نہیں ہو سکی۔ اندازاً دیہی سندھ کی ایک بڑی آبادی آج بھی غربت کی لکیر کے قریب زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے باوجود، یہی لوگ ملک کی خوراک اگاتے ہیں، کپاس کی فصلوں سے صنعتوں کو مواد دیتے ہیں اور ملک کے لیے قیمتی زرِ مبادلہ کمانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔سندھ کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صوبے کے وسائل کا منصفانہ استعمال کیا جائے۔ صوبے کے نوجوانوں کو جدید صنعتوں میں تربیت دی جائے تاکہ وہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسابقت کر سکیں۔ زراعت کے شعبے میں جدید طریقۂ کاشت، مشینی آبپاشی، موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت اور فصلوں کی متنوع پیداوار کے لیے منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ اگر یہ اقدامات بروقت کیے جائیں تو سندھ پاکستان کے زرعی شعبے میں انقلاب لا سکتا ہے۔صنعتی ترقی کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ کراچی اور دیگر صنعتی شہروں میں موجود پرانی صنعتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، نئے انڈسٹریل زونز قائم کرنا ہوں گے، اور نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع بڑھانے ہوں گے۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں بندرگاہوں کی توسیع اور تجارتی راہداریوں کی ترقی پورے ملک کی معیشت کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ سندھ کی جغرافیائی پوزیشن جہاں سے گوادر، خلیجی ریاستوں اور وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی ممکن ہے اسے علاقائی تجارت کیلئے ایک اہم گیٹ وے بناتی ہے۔خدماتی شعبہ بھی سندھ کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیم، صحت، آئی ٹی، مالیات اور مواصلات کے میدان میں سندھ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں نوجوان نسل انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فری لانسنگ کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر خدمات فراہم کر رہی ہے۔ اگر حکومت نوجوانوں کے لیے ٹیکنالوجی پارکس، کاروباری مراکز اور مالی معاونت کے پروگرام بڑھا دے تو سندھ کے نوجوان عالمی مارکیٹ میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ کی ترقی صرف معاشی نہیں بلکہ سماجی توازن سے بھی جڑی ہے۔ جب تک دیہی سندھ کے کسان، مزدور اور خواتین کو تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار کے مساوی مواقع نہیں ملیں گے، ترقی کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح شہری علاقوں میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور انفراسٹرکچر کے دباؤ کو بھی کم کرنا ہوگا تاکہ ترقی پائیدار ہو۔ سندھ کے سماجی ڈھانچے میں شمولیت، ہم آہنگی اور انصاف کو فروغ دینا ملکی معیشت کی مضبوطی کیلئے لازمی ہے۔