اکتوبر 2025ءمیں استنبول ایک بار پھر دو برادر اسلامی ممالک، پاکستان اور افغانستان کے درمیان امید اور اضطراب کا مرکز بنا۔ ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہونیوالے مذاکرات ساڑھے چار دن جاری رہے، مگر کسی حتمی نتیجے کے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ یہ مذاکرات امن کے بجائے خودمختاری کی متضاد تعبیرات میں الجھ کر رہ گئے۔پاکستان کا بنیادی مؤقف افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندیعنی تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خلاف قابلِ تصدیق اور عملی کارروائی کو مستقل طور پر رکوانا تھاجبکہ طالبان کا اصرار تھا کہ پاکستان،فضائی حدود کی خلاف ورزیوں اور ڈرون حملوں کا سلسلہ ختم کرے، اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
استنبول مذاکرات ترکیہ کی خفیہ ایجنسی کے محفوظ کمپاؤنڈ میں منعقد ہوئے ۔ پاکستانی اور افغان حکام پہلے چار دن ایک طویل بیضوی میز کے گرد ایک دوسرے کے سامنے تشریف فرما ہوئے ۔ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات کئی بار تعطل کے قریب پہنچے، لیکن ترک اور قطری ثالثوں کی کاوشوں سے مذاکرات کا تسلسل برقرار رہا۔ پاکستانی وفد کی جانب سے مسلسل تحریر ی ضمانت کا مطالبہ کیا جاتا رہا لیکن طالبان وفد تحریر ی ضمانت فراہم کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ پاکستانی وفد نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور بھارتی مداخلت سے متعلق ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے، تاہم افغان وفد بارہا اصل مسئلے سے ہٹ کر ضمنی نکات کو موضوع بناتا رہا۔یہ تنازع محض سکیورٹی یا سرحدی امور تک محدود نہیں بلکہ ایک گہرا نظریاتی تضاد بھی رکھتا ہے۔ اسلام آباد کے نزدیک خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ملک اپنی زمین کو ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے، جبکہ کابل کے نزدیک خودمختاری کی اصل روح غیر ملکی مداخلت کے مکمل خاتمے میں مضمر ہے۔ یہی اختلاف مذاکرات کے بنیادی خدوخال پر چھایا رہا، اور خودمختاری کا لفظ دونوں کیلئے مختلف معنویت اختیار کرتا گیا۔مذاکرات کے تیسرے روز فضا اس وقت مزید کشیدہ ہوئی جب افغان وفد نے ڈرون حملوں اور فضائی خلاف ورزیوں پر تحفظات ظاہر کیےجبکہ پاکستانی وفد نے بعض ڈرونز قطر میں موجود امریکی اڈوں سے اڑنے(قطر کے سفیر نے اس کی تصدیق بھی کی ) اور اسلام آباد کا براہِ راست ان ڈرونز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہونے سے آگاہ کیا لیکن یہی مؤقف فریقین کے درمیان اعتماد کے فقدان کو مزید گہرا کرتا چلا گیا۔ دوسرا اہم تنازع اس وقت ابھرا جب پاکستان نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے زیرِ اثر عناصر کو قابو میں لائے جو پاکستانی علاقوں میں حملے کر رہے ہیں۔ افغان نمائندوں نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگجو دراصل پاکستانی شہری ہیں، اس لیے ان کی ذمہ داری بھی پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ ثالثوں کی تمام کوششوں کے باوجود دونوں فریق کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق نہ ہو سکے۔وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے مطابق افغان ٹیم نے کئی بار معاہدے کے قریب پہنچ کر پسپائی اختیار کی۔ انکے بقول کابل میں ایسے عناصر موجود ہیں جو دہلی کے زیرِ اثر ہیں، اور یہی مذاکراتی عمل کی ناکامی کا اصل سبب بنے اور پاکستانی وفد نےپاکستان جانے کی راہ اختیار کرلی اس کشیدہ فضا میں ترک اور قطری ثالثوں نے سفارتی مہارت سے ماحول کو سنبھالااور اگلے دن دونوں ممالک کے وفود کو ایک دوسرے کے آمنے سامنےلائے بغیر دونوں ممالک کی رضامندی سےایک عبوری مشترکہ اعلامیہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی جسے آئندہ مذاکرات کی بنیاد کے طور پر قبول کیا گیا۔اعلامیے کے مطابق تمام فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مذاکرات کا بنیادی مقصد دوحہ میں طے پانے والی جنگ بندی کو مزید مستحکم اور مستقل بنانا ہے تاکہ سرحدی کشیدگی میں کمی اور سیاسی اعتماد کی فضا پیدا کی جا سکے۔
فریقین نے جنگ بندی برقرار رکھنے کے عزم کی تجدید کی، تاہم یہ اس شرط سے مشروط ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف کسی دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔ افغان طالبان نے یقین دلایا کہ وہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہند کے نام سے سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح اور مؤثر کارروائی کریں گے۔ایک مشترکہ نگرانی و توثیقی نظام (Joint Monitoring and Verification Mechanism) قائم کیا جائیگا، جو جنگ بندی کی نگرانی اور خلاف ورزیوں کی جانچ کرےگا۔ یہ نظام ترکیہ اور قطر کی نگرانی میں کام کرےگااور فریقین کے درمیان اعتماد کی ضمانت بنے گا۔آئندہ اجلاس 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا، جہاں اس عبوری معاہدے کو عملی شکل دینے اور اسکے نفاذ کے تمام پہلوؤں پر بات چیت ہوگی۔تمام فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تجارتی راستوں کی بحالی، عوامی سطح پر روابط، ثقافتی تبادلوں اور انسانی تعاون کے اقدامات کو ترجیح دی جائے تاکہ خطے میں دیرپا ہم آہنگی پیدا ہو۔یہ عبوری اعلامیہ اگرچہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن اختلافات کی جڑیں بدستور باقی ہیں۔ دوحہ میں طے شدہ جنگ بندی اب تک کاغذوں تک محدود ہے۔ سرحدی جھڑپیں وقفے وقفے سے جاری ہیں، اسپن بولدک اور طورخم کی گزرگاہوں پر تجارتی سرگرمیاں متاثر ہیں، اور عوامی سطح پر بے چینی برقرار ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان حکومت داخلی سطح پرافغان خودمختاری کے بیانیے کو مضبوط بنا کر سیاسی استحکام حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان اپنی قومی سلامتی کے خدشات کے پیشِ نظر کسی نرمی کے موڈ میں نہیں۔ یہی باہمی تناؤ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک مستقل رکاوٹ بن چکا ہے۔تاہم ترکیہ اور قطر اب بھی اس عمل کو نامکمل مگر امیدافزا سمجھتے ہیں۔ ترک حکام کے مطابق چار دن تک دونوں وفود ایک ہی میز پر بیٹھے رہے ،جو اس بات کی غمازی کرتا ہےکہ امن کی خواہش زندہ ہے۔
استنبول مذاکرات نے یہ حقیقت آشکار کی کہ امن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ نیت نہیں بلکہ اعتماد کی کمی ہے۔ جب تک دونوں ممالک خودمختاری کو متصادم بیانیے کے بجائے باہمی ذمہ داری کے طور پر تسلیم نہیں کرتے، تب تک امن کی منزل ایک ناتمام خواب ہی رہے گی۔یہ مذاکرات اس بات کا مظہر ہیں کہ سیاسی فہم، سفارتی صبر اور مستقل مزاجی ہی وہ اوزار ہیں جن سے جنگ کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔ شاید 6 نومبر کے مذاکرات اس سمت میں ایک نیا باب ثابت ہوں ، ایک ایسا باب جس میں ماضی کے زخموں کے بجائے مستقبل کے امکانات کو جگہ ملے۔