• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یور پی یونین کے شماریاتی ونگ یورو سٹیٹ نے اعداد و شمار جاری کیے ہیں کہ برطانیہ کو یورپ کا سب سے زیادہ ’’اوپن ملک‘‘ بنانےکیلئے ہر پانچ منٹ میں دو عدد کی حیران کن شرح سے امیگرینٹس کو پاسپورٹ جاری کر دیے گئے ہیں ریسرچ کے مطابق 2022 ءمیں ناقابل یقین حد تک دو لاکھ 4 ہزار غیر ملکیوں کو برطانوی شہریت دی گئی۔ادھر یورپی یونین ممالک کی اکثریت نے اپنی سرحدوں پر نگرانی کے عمل کو سخت بنانے کے حق میں ووٹ دیا ہے، شمالی افریقہ میں بد امنی کے شکار ملکوں سے ہزار ہا مہاجرین کی اٹلی آمد کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔برطانیہ کے بعد فرانس دوسرے اورجرمنی تیسرے نمبر پر ہے ۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو ماہرین کی پیش گوئی ٹھیک لگتی ہے کہ 2050میں برطانیہ یورپ کا سب سے زیادہ گنجان آباد ملک بن جائیگا۔شہریت دینے کے عمل پر ہر طرف تنقیدجاری ہے اور وزیراعظم کیر سٹارمر سے کیا گیا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ انہیں بڑی تعداد میں امیگرینٹس روکنے کیلئے امیگریشن پالیسی سخت کرنا ہوگی۔ اس سے ہزاروں پاکستانی متاثر ہونگے ۔برطانیہ کے وزیر امیگریشن نے اپنے حالیہ انٹرویو میں بتایا ہے کہ نئی تجاویز منصفانہ اور اخراجات میں کمی کیلئے ضروری ہیں جنکا مقصد کاغذی شادیوں کی حوصلہ شکنی ہے ۔ ادھر پاکستان میں نقلی برطانوی پاسپورٹ کی تیاری ایک عام سی بات ہے امریکی اور برطانوی حکومتوں نے ایسے پاسپورٹوں کے ذریعے دہشتگردوں کے بیرونی دوروں کے انسداد کا بھی مطالبہ کیا ہے انٹرپول کے ایک عہدیدار نے حیرت ناک انکشاف کیا ہے کہ 40 ہزار سے زائد افراد جعلی پاسپورٹ کا استعمال کر کے مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہیں یا غائب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں جعلی برطانوی پاسپورٹ کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ برطانیہ میں شوہر، بیوی یا پارٹنر کی جانب سے مستقل قیام کیلئے درخواست کی عبوری مدت دو سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی ہے جبکہ یورپی یونین سے باہر کے ملکوں سے برطانیہ میں رہائش پذیر اپنے عزیزوں کے ساتھ شامل ہونے والے ویلفیئر مراعات کے مستحق نہیں ہونگےیہی وجہ ہے کہ پاکستان ،بنگلہ دیش ،افریقی اور کیریبین ممالک سے تعلق رکھنے والے معمولی آمدنی والے افراد شدید متاثر ہونگے ۔یہ بات قابل ذکرہے کہ برطانیہ میں بے روزگار افراد کی تعداد 35لاکھ ہو گئی ہے۔ دارالعوام کی امور داخلہ سیلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ترکی کو ممبر بننے کی اجازت دینے سے پہلے اس کی سرحدوں پر برسلز کے قواعد کے مطابق سخت کنٹرول نافذ کیا جائے۔ممبران پارلیمنٹ نے خبردار کیا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ ترکی برطانیہ میں داخلے کیلئےگیٹ وے کے طور پر استعمال ہوگا ترکی کی ممبرشپ سے یورپی یونین کی سرحدیں ایران، عراق اور شام تک وسیع ہو جائیں گی۔ جبکہ یونان اور ترکی کے درمیان بھی غیر قانونی تارکین وطن کے داخلے کی جگہیں موجود ہیں،ہزاروں تارکین وطن ترکی کے راستے ہر ماہ یورپی یونین میں داخل ہو رہے ہیں اور ان میں سے اکثر برطانیہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ مجرم گروہوں کے خلاف اقدامات سخت کرنے کی ضرورت ہے جو ہزاروں تارکین وطن کی یورپین یونین میں منتقلی اور انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ایک معلوماتی اور اہم بات یہ ہے کہ 2030 تک یورپی یونین میں تارکین وطن کی آمد کا تخمینہ 6 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ امریکی حکومت نے یورپی یونین سے درخواست کی ہے کہ جعلی یورپی پاسپورٹ بالخصوص برطانوی پاسپورٹ کے ذریعے دہشتگردوں کے سمندر پار دوروں کو روکا جائے، امریکی حکومت نے پاکستان اور دیگر تین ممالک میں ٹیموں کو بھی روانہ کیا ہے تاکہ وہ جعلی پاسپورٹوں کے نیٹ ورک پر پابندیاں کو جلد از جلد لاگو کروا سکے۔ اس نے جعلی پاسپورٹوں کے چار شعبوں کی نشاندہی بھی کی ہے جس میں دہشتگردوں کے بارے میں معلومات کے تبادلے سفری جعلی دستاویزات پاسپورٹ کے غیر قانونی اجرا اور پاسپورٹ اجرا میں سکیورٹی کی خامیوں کا پتہ چلایا ہے برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کےاجلاس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شینگن زون میں آزادانہ سفر کی سہولت کو محدود نہیں کیا جائے گا ۔اس سے قبل شینگن زون میں آزادانہ سفر کو محدود کر کے زون میں شامل ممالک کو عارضی طور پر بارڈر کنٹرول کرنے کی بات کی گئی تھی جس پر یورپی یونین ملکوں کے بیشتر نمائندوں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ یونین کی حدود کے اندر لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت ان کی ایک کلیدی کامیابی ہے اور ہم اس بنیادی کامیابی کی حفاظت کریں گے اور اسے برقرار رکھیں گے تاہم یورپی کمیشن بھی کسی حد تک شینگن معاہدے میں اصلاحات کریں گے اور اسے برقرار رکھیں گے تاہم اور یورپی کمیشن بھی کسی حد تک شینگن معاہدے میں اصلاحات کا حامی ہے، اس کے خیال میں ایسا کرنا اس وقت ضروری ہو سکتا ہے جب بیرونی سرحدوں کے کسی حصے کو غیر متوقع دباؤ کا سامنا ہو، تارکین وطن کے حالیہ (یاد رہے کہ شمالی افریقہ میں بدامنی کے شکار ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین کی اٹلی آمد کے بعد یورپی یونین ایسا سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے) مسئلے پر قابو پانے کیلئے ایسے ناگزیر حالات میں اندرونی سرحد وں کی پھر سے بحالی ہی ہو سکتا ہے۔ تمام خدشات اور اندیشہ ہائے دور دراز اپنی جگہ پر صحیح ہو سکتے ہیں لیکن شینگن معاہدے میں شامل تمام ملکوں کی رضامندی کے بغیر کوئی معاہدہ ممکن نہیں اور تارکین وطن کے سیلاب یا سونامی کو روکا نہیں جا سکتا اور یہ جاننے کیلئے کسی یونیورسٹی کی ڈگری کی ضرورت ہرگز نہیں کہ کوئی بھی منفی فیصلہ لگ بھگ 400 ملین یورپی باشندوں اور ان کے کلچر کو متاثر کرے گا ۔

تازہ ترین