• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

چھوٹی سی تحریر پسند آئی

’’ربیع الاول ایڈیشن‘‘ سامنے ہے۔ زیادہ تر مضامین ربیع الاول اور یومِ دفاع کی مناسبت سے تھے، سب ہی پڑھ لیے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا غزہ کے حوالے سے مضمون کے ساتھ موجود تھے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کی دوسری قسط اچھی تھی۔ 

کافی عرصے بعد ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کا صفحہ شامل کیا گیا، جس میں صنوبرخان ثانی، اپنی والدہ، اسلم قریشی، خالہ اور ایم شمیم نوید چچا پر مضمون کے ساتھ موجود تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کی چھوٹی سی تحریر بہت ہی پسند آئی اور نئی کتابوں میں ’’عدلیہ میں میرے44سال‘‘ نامی کتاب پر تبصرہ بہت اچھا لگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

تحریریں رد کرنے کا پیمانہ

6 ستمبر کو ربیع الاول کی چُھٹی تھی، ذہن سے نکل گیا کہ چُھٹی کے اگلے روز اخبار نہیں آئے گا۔ چناں چہ اخبار حاصل نہ کرسکا اور اب لائبریری سے پڑھ کر ہی تبصرہ کیا جارہا ہے۔ 

ربیع الاول کی مناسبت سے روضۂ رسول ﷺ کا خُوب صُورت منظر دیکھنے کو ملا۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی تحریر ’’مقامِ محمّد ﷺ ، قرآنِ کریم کی روشنی میں‘‘ دل و نگاہ کو معطّر کر گئی۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر توسماج کی عورت کے لیے آئینے کے مثل ٹھہری۔ خصوصاً اُن خواتین کے لیے جوحقوق سے زیادہ حقوق کا پرچار کرتی ہیں۔ 

یہ حقیقت ہے کہ عورت کی حقیقی عزت وتوقیر، نبی کریمؐ کے عطا کردہ اسوۂ حسنہ ہی میں ہے۔ بلال بشیر اور رابعہ فاطمہ نے بھی اہم موضوعات پر قلم اٹھایا۔ یومِ دفاع کی مناسبت سے ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر سحاب کی تحریر معلوماتی ہونے کے ساتھ دل چسپ بھی تھی۔ اچھی بات یہ لگی کہ لکھنے والا اپنے شعبے کا ماہر تھا۔ 

قائدِاعظم کے آخری ایّام کی رُوداد، اسرار ایوبی نے تفصیلاً اور حوالہ جات کے ساتھ بیان کی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اخبارِ جہاں کے نائب مدیر صنوبر خان ثانی نے، والدہ کی یادوں پر ایک دل سوز تحریر لکھی۔ سرسوں کے تیل کی مالش کا پڑھتے اپنی والدہ یاد آگئیں، تو آنکھیں نم ہوگئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں جویریہ شاہ رُخ نے ایک ماں کی محبّت کو حضرت بی بی حاجرہؑ اور فلسطینی ماؤں کی محبّت کے تقابل سے عُمدگی سے بیان کیا۔ 

مختصر تحریر’’کیوں؟‘‘ میں نظیر فاطمہ نے بھی اہم پیغام چھوڑا۔ چوہدری قمر علی جہاں نے تحریروں کو رد کرنے کا جو پیمانہ متعارف کروایا کہ ’’میری تحریریں وہی رد کرسکتا ہے، جس کی مجھ سے زیادہ تحریریں شائع ہوچُکی ہوں۔‘‘ 

پڑھ کر سخت حیرت ہوئی۔ قرات نقوی کے برقی خط سے اندازہ ہورہا ہےکہ حالات کس طرف جارہے ہیں۔ اگر دسمبر کی میل اگست میں شائع ہورہی ہے، تو امید رکھنی چاہیے کہ پچھلے سال کے خطوط اگلے سال بھی شائع ہوسکتے ہیں۔ (رانا محمّد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج: مُلک میں لولی لنگڑی سہی، ہمارے یہاں سالم جمہوریت ہے۔ سو، جس کا جو جی چاہے، کہہ سکتاہے۔ ہاں یہ الگ بات ہےکہ درست ہمیشہ درست اور غلط، غلط ہی رہے گا، تو ایسی باتوں سے کچھ خاص فرق پڑتا نہیں۔ جہاں تک خطوط کی اشاعت کا معاملہ ہے، تو جگہ کی کمی کے باعث زیادہ تاخیر کا شکار’’برقی خطوط‘‘ ہوتے ہیں، ڈاک سے موصول ہونے والی تحریریں تو ایک سے دوماہ کے وقفے سے شایع ہو ہی رہی ہیں۔

ترجمانی کا فریضہ

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے شان دار مضمون تحریر کیا اور پورے مضمون کا نچوڑ آخری پیراگراف میں سمو دیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ’’عالمی یوم حجاب‘‘ کے حوالے سے بہترین مضمون لکھا۔ سیدہ تحسین عابدی نے اُن چراغوں کا ذکر کیا، جو اندھیروں میں روشنی دیتے رہے۔ ’’فیچر‘‘ میں رؤف ظفر نے ادویہ کی بے تحاشا بڑھتی قیمتوں کی طرف توجّہ دلائی۔

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، حُکم رانوں کو پالیسی مرتب کرتے ہوئے پاکستان کے مفادات پیشِ نظر رکھنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ’’عورت کہانی‘‘ دل چسپ تھی، لیکن بعض جگہوں پر انگریزی الفاظ نے مزہ خراب کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں رابعہ فاطمہ نے اپنی تحریر میں پردے کے متعلق کلامِ پاک کے مختلف حوالے پیش کیے۔ 

اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے مقامِ مصطفیٰ ﷺ پر ایک بھرپور مضمون تحریر کیا، یہاں تک کہ غیر مسلموں کے بھی حوالے دیے۔ منیر احمد خلیلی نے تیونس کے حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ٹرمپ، پیوٹن ملاقات کا احوال لائے۔

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں، پروفیسر ڈاکٹرصادق میمن نے ہیپاٹائٹس سے متعلق مفید معلومات فراہم کیں، مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ جب کہ ’’متفرق‘‘ میں سیدہ تحسین عابدی نے توانائی کے انقلاب کو بےنظیربھٹو کا وژن قرار دے کر سندھ حکومت کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: جی، وہ سندھ حکومت ہی کی ترجمان ہیں، تو اُنھوں نے اپنا ہی فریضہ انجام دینا تھا، نہ کہ آپ کا۔ اطلاعاً عرض ہے، یہ جریدہ سب کا ہے، جو جس کی ترجمانی کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ کوئی مخالف موقف آئےگا، تو ہم اُس کا بھی خیرمقدم کریں گے۔

پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیا

بلاشبہ، حافظ ایم ثانی کا طرزِ تحریر منفرد ہے۔ شانِ مصطفیٰ ﷺ پر لکھنا دل، گردے کا کام ہے کہ جس بابرکت ہستی سے متعلق لکھا جا رہا ہوتا ہے، وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی محبوب ہے، لیکن اِس بار بھی صاحبِ مضمون نے حق ادا کردیا۔ کلمۂ توحید، اذان کے ذکر سے آغاز ہوکر مغربی مصنفین کی نظر میں عظمتِ مصطفیٰ ﷺ کا ذکر کر کے آپﷺ کی شانِ اقدس کو کماحقہ اجاگر کیا۔ 

منیر احمد خلیلی نے ایک محقّق کی طرح تیونس کی تاریخ کھنگال کر رکھ دی۔ ’’عرب اسپرنگ‘‘ سے لے کر عرب دنیا میں آمریت کے خدوخال تک کو واضح کیا اور وہاں پائی جانے والی عوامی بےچینی بھی سامنے لائے۔ سلیم اللہ صدیقی نےاسٹاک مارکیٹ پر قدرے طویل، مگر اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے مزیّن تھوڑے خشک سے مضمون میں خاصی معلومات فراہم کیں۔ 

ثانیہ انور نے تو ستمبر کے مہینے کا پوسٹ مارٹم ہی کرکے رکھ دیا۔ ’’خاندان، معاشرے کی بنیادی اکائی‘‘ اور ’’جشنِ آزادی‘‘ کے حوالے سے مختصر مضامین ماضی کی روایات اور حال کا نوحہ لگے۔ منور مرزا کا جان دار تجزیہ معلومات سے بھرپور تھا۔ 

یرقان پر ایک تحقیق کا پہلو لیے مضمون بھی خاصا معلوماتی معلوم ہوا۔ عاصم بٹ کا افسانہ بےحد دل چسپ لگا، مزید پرتیں شاید اگلے شمارے میں کُھل جائیں۔ ’’بے نظیر بھٹو کاویژن‘‘ کے عنوان سے تحسین عابدی کا مضمون اچھا تھا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ’’میں جس سے پیار کرتا ہوں، اُسی کو مار دیتا ہوں۔‘‘ رہ گیا اختر سعیدی کا کتب پر تبصرہ، تو ہمیشہ کی طرح خاصی عرق ریزی سے کیا گیا۔ (تبسم انصار، لاہور)

ج: سابقہ کی طرح یہ خط بھی عُمدگی سے لکھا گیا ہے، آپ تبصرہ نگاری کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ اس دورِ ابتلا میں، بزم میں ایک اچھے لکھاری کا اضافہ خاصا خوش آئند ہے۔

دو تبصرے ایک ساتھ

سٹی پوسٹ آفس، بہاول نگر، گھر کے بالکل قریب تھا، جسے حکومت نے ختم کردیا۔ ہیڈ پوسٹ آفس ہمارے گھر سے کافی فاصلے پر ہے اور وہاں جاکے خط ڈالنا، جان جوکھوں کا کام ہے، اس لیے اپنے دو تبصرے ایک ساتھ پوسٹ کر رہا ہوں۔ آپ آگے، پیچھے کی اشاعتوں میں شامل فرما لیجیے گا۔ اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ موجود تھا۔ ’’تیونس تیسری آمریت کے شکنجے میں‘‘ معلوماتی تحریر تھی۔ 

’’پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ کے78 سال سے بھی سیر حاصل معلومات ملیں۔ ثانیہ انور نے ماہِ ستمبر کےعالمی ایام کا جائزہ بہت ہی عُمدگی سے لیا، ویری ویل ڈن۔ ’’اسٹائل‘‘ رائٹ اَپ ’’پھر لوٹ کے بچپن کے زمانےنہیں آتے…‘‘ بھی شان دار تھا۔ دو عالمی طاقتوں روس، امریکا کی (ٹرمپ اور پیوٹن) ملاقات کا احوال پڑھا۔

’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ’’تیز بارش میں ہونے والا واقعہ‘‘ کے دونوں حصّے کمال تھے۔ دوسرا حصّہ پڑھ رہا تھا کہ ہمارے ہاں بھی تیز بارش شروع ہوگئی۔ ’’ربیع الاوّل ایڈیشن‘‘ کے سب مضامین ہمارے پیارے نبیﷺ کی شانِ اقدس بیان کررہے تھے۔ محمّد سلیم راجا اور رونق افروز برقی نے میرے خطوط کی تعریف کی، دونوں کا بہت بہت شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: آپ کی ہدایت کے مطابق ایک خط اس اشاعت میں شامل کر رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ دوسرا، اگلی اشاعت میں جگہ بنالے گا۔

’’قلم زدگی‘‘ کا شکار

ہم اپنے پچھلے خطوط میں بھی اظہار کرچُکے ہیں کہ آپ ہماری بیٹیوں کی طرح ہیں۔ الحمدُللہ، بحیثیت معلم القرآن ہمارے بہت سے طلبہ، ہمارے دینی علم سے مستفید ہورہے ہیں۔ دوست احباب کا بھی وسیع حلقہ ہے اور خاندان کے بھی کافی لوگ ہمارے حوالے سے روزنامہ جنگ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ پورے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ہمیں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘، ’’سنڈے اسپیشل‘‘، ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘، ’’متفرق‘‘ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ سلسلے زیادہ پسند ہیں۔ 

ایک گزارش ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ایسی تحریروں کو بھی جگہ دیں، جو سنجیدہ اور خشک موضوعات سے ہٹ کر ہوں اور اس بات سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں، بلکہ یہ تو ایک متوازن فکری سوچ ہے۔ آج کے جریدے میں سرِورق پر بچّوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی ’’مقامِ مصطفیٰ ﷺ اور شانِ ورفعنا لک ذکرک‘‘ کافی مدلّل وموثر تحریر تھی، خصوصاً غیر مسلم ماہرین، مفکرین اور مورخین کی آراء پڑھ کے دل فخر سے جھوم گیا۔

’’رپورٹ‘‘ میں سلیم اللہ صدیقی کی تحریر ’’پاکستان اسٹاک مارکٹ کے 78سال‘‘ بھی ضخیم معلومات پر مبنی تھی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انور حسبِ سابق معلومات کا ذخیرہ لیے حاضر تھیں، جب کہ ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ بھی بہت پسند آیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر صادق میمن کا مضمون کافی فائدہ مند ثابت ہوا۔

پچھلے دو ہفتوں سے منور راجپوت اور اس ہفتے حافظ بلال بشیرکی کمی محسوس ہوئی۔ چوں کہ ہماری اِس تحریرمیں تعریفوں کے پُل نہیں باندھے گئے، اِس لیے اشاعت تو مشکل ہی ہے اور اگر ردی کی ٹوکری میں نہ بھی گیا تو قلم زدگی کا شکار تو ضرور ہی ہوگا۔ (صبور مشتاق حسن، رمضان گارڈن، شو مارکیٹ، کراچی)

ج: ’’قلم زدگی‘‘ سے آپ کی کیا مُراد ہے؟ آپ کی اُمید کے برعکس خط شائع بھی ہورہا ہے اور بہت کم ایڈیٹنگ کے ساتھ، مگربراہِ مہربانی آئندہ سارا فوکس مندرجات پر رکھیں۔ ٹودی پوائنٹ بات کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے اور کوشش کریں، وہی الفاظ استعمال کریں، جن کے معنی و مفہوم بھی پتا ہوں۔

                            فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

زندگی کی اَن گنت مصروفیات میں قلم و قرطاس کےلیے وقت نکالنا تھوڑا مشکل ضرور ہے، لیکن یہ علم و ادب سے ہلکی پُھلکی وابستگی، عملی زندگی کی تلخیاں کچھ کم بھی کردیتی ہے۔ ہرہفتے’’سنڈے میگزین‘‘ کا مطالعہ، ترتیب وار سلسلے، رنگارنگ مضامین، خاص طور پر علم وادب کی چاشنی لیےمرکزی صفحات کی زینت بنی آپ کی اُجلی، خُوب صُورت تحریر، چند لمحات ہی کے لیے سہی، کئی تلخیوں، مصائب کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے، ہلکی ہلکی رِم جِھم اور ٹھنڈی میٹھی ہوائوں کے سنگ اگست کا شمارہ موصول ہوا۔ 

سرِورق جشن آزادی کے رنگوں سے مزیّن تھا۔ حسبِ عادت ورق گردانی کے بعد باقاعدہ مطالعے کا آغاز کیا۔ رابعہ فاطمہ نے تحریکِ پاکستان میں خواتین کے کردار پر عُمدہ مضمون نگاری کی۔ یقیناً تحریکِ پاکستان کی جدوجہد خواتین کی شمولیت کے بغیر پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی تھی کہ نسلوں کی تربیت، ذہنوں کی آب یاری ایک عورت ہی کرتی ہے۔

خواتین رہنما نہیں بھی ہوتیں، توسارے رہنما اُن ہی کی کوکھ سے جنم لیتے، انہی کی گود میں پرورش پاتے ہیں۔ ’’سنڈےاسپیشل‘‘ میں مدثر اعجاز نے قیامِ پاکستان کی تاریخ اور تحریکِ پاکستان کا پس منظر مختصراً بیان کیا۔ ڈاکٹر محمد ریاض جشنِ آزادی کےحوالے سے عُمدہ پیغام دے رہےتھے، خصوصاً نسلِ نو کے لیے اِس میں خاص نصیحت موجود تھی۔ سیّدہ تحسین عابدی نے مادر ِوطن کی نظریاتی اور سیاسی تاریخ پر عُمدہ قلم کشائی کی۔

آخری سطورمیں اُن کاجھکاؤ ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی جانب بھی محسوس ہوا۔ ڈاکٹر عابد شیروانی شاعرِ مشرق، مصوّرِ پاکستان، عظیم مفکّر علامہ محمّد اقبال کے حوالے سے رقم طراز تھے۔ بے شک، علامہ اقبال ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ راسخ العقیدہ مسلمان بھی تھے۔ اسی سبب انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے تحریکِ پاکستان میں اسلام کی رُوح پھونکی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا فلسیطن جنگ پر قلم آراء تھے۔ 

فرانس، برطانیہ جیسے پُراثرممالک فلسیطنی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ اللہ کرے، اعلانات سے آگے بھی کوئی عملی قدم اُٹھایا جائے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ تحریم فاطمہ کی فکر انگیز تحریر سے سجا تھا۔ یقیناً14اگست صرف خوشی و مسرت، جشن کا دن نہیں بلکہ تجدید عہد کا بھی دن ہے۔ منور راجپوت نے تحریکِ آزادی کے گم نام ہیرو، قادو مکرانی کا احوالِ زندگی اور انگریز سام راج کے خلاف جدوجہد مختصراً بیان کی۔ 

منتخب افسانہ ’’کج مدار‘‘ زندگی کی باریکیاں واضح کررہا تھا۔ فلک سےگرتی برف، جو کسی کے لیے راحتِ جاں ہے اور کسی کے لیے وبالِ جاں۔ بس، یہی زندگی کی سچائی، حقیقت ہے۔ نادیہ سیف افسانہ نگاری کا ایک منفرد طریقہ بتا رہی تھیں۔ 

سفرنامے کا حصّہ دوم بھی دل چپسی سے بھرپور تھا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ حسبِ معمول قارئین کے رنگا رنگ خطوط سے مزیّن تھا اور ماشاءاللہ اب تو’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ بھی عروبہ غزل، مشرقی لڑکی جیسے زرخیز ذہنوں کی بدولت نہایت دل چسپ ہوتا جارہا ہے۔ (عائشہ ناصر، دہلی کالونی، کراچی)

ج: واقعی، یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ متعدّد شعبہ ہائے زندگی میں، ہماری بیٹیاں، بیٹوں پر بازی لے گئی ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* صفحہ’’ڈائجسٹ‘‘ پر افسانے ’’کالی کلوٹی‘‘ نے تو بس رُلاہی دیا، اختتام پر تو یہ حال تھا کہ آنسو تھم ہی نہیں رہے تھے۔ کیسا المیہ ہے کہ محض ظاہری رنگ رُوپ کی بنیاد پر کسی کی پوری زندگی ہی برباد کردی جائے، جب کہ خاص طور پر دینِ اسلام کی تو تعلیمات ہی یہ ہیں کہ ’’کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔‘‘ (انس ملک، حیدرآباد)

ج: سوفی صد متفق۔

* بذریعہ ای میل ایک افسانہ ’’شمعِ توکّل‘‘ بھیجا تھا، جو اب تک شائع نہیں ہوا اور نہ ہی میرا نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل ہوا ہے۔ کیا آپ اُس کے کرنٹ اسٹیٹس سے آگاہ کرسکتی ہیں۔ (آسیہ پری وش، حیدرآباد)

ج:صفحات محدود، تحاریر زیادہ ہونے کے سبب افسانہ تاخیر سے سہی، لیکن شایع ہوچُکا ہے۔

* کیا یہ آپ کا جنگ، سنڈے میگزین کا آفیشل ای میل ایڈریس ہے؟ کیا آپ اپنے جریدے میں میری رائے شامل کرنا چاہیں گی؟ (اعجاز احمد ابڑو)

ج: جی بالکل، ای میل بھیجنے کی زحمت کی تھی، تو ساتھ ہی رائے سے بھی آگاہ کر دیتے۔ اب اُس کے لیے ہماری طرف سے کوئی علیحدہ دعوت نامہ تھوڑی جاری ہوگا۔

* مَیں ایک حالیہ ایم بی بی ایس گریجویٹ ہوں۔ آپ کے جریدے کے لیے لکھنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ اس کے لیے طریقۂ کار کیا ہے؟ (ڈاکٹر عثمان ناریجو)

ج: سادہ ترین طریقۂ کار تو یہی ہے کہ تحریر لکھ کے ارسال کردیں۔ ای میل کرنا چاہیں تو وہ بھی (اِن پیج یا ورڈ فارمیٹ میں) کر سکتے ہیں۔ مضامین کی نوعیت، طرزِ نگارش جاننا چاہیں تو جریدے کے سلسلے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا باقاعدہ مطالعہ کریں۔

* آج تو آپ نے بس ایک طویل ترین ای میل شایع کرکے کام ہی ختم کردیا، تو اب ہم چاہنے والوں، تڑپنے والوں کا کیا ہوگا؟ بھئی، آخر ہم غریبوں کی باری کب آئے گی۔ ایک تو اتنا ننّھا سا ای میل کارنر، اور وہ بھی قرات العین اور عروبہ غزل کے لیے مختص!! (صاعقہ سبحان)

ج: ہمارے خیال میں تو عروبہ اور قرات کے مقابلے میں تمھاری زیادہ ای میلز شایع ہوچُکی ہیں۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید